پروفیسرمحمودآباد کامعاملہ: ہریانہ ایس آئی ٹی کو سپریم کورٹ کی پھٹکار

کہاآپ کی جانچ کی رفتار غلط سمت میں جا رہی ہے، موبائل اور الیکٹرانک گیجٹس ضبط کرنے کا کوئی حق نہیں ،تحقیقات کیلئے بار بار بلانے کی ضرورت بھی نہیں ،ایس آئی ٹی کو چار ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم  

 

نئی دہلی، 16 جولائی:۔

آپریشن سندور پر تبصرہ کرنے پرایس آئی ٹی جانچ کا سامنا کر رہے اشوکا یونیور سٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کے  معاملے میں آج سپریم کورٹ نے ایس آئی ٹی کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک گیجٹس ضبط کرنے اور انہیں بار بار تحقیقات کے نام پر بلانے کی ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ نے مزید ہریانہ ایس آئی ٹی کو ہدایت دی ہے کہ   پروفیسر علی خان محمود آباد کے خلاف درج دو ایف آئی آر تک اپنا دائرہ کار محدود کرے۔ جسٹس سوریا کانت کی سربراہی والی بنچ نے ہریانہ ایس آئی ٹی کو اس بات کی جانچ کرنے کی ہدایت دی کہ آیا محمود آباد کی سوشل میڈیا پوسٹ کی وجہ سے کوئی جرم ہوا ہے یا نہیں۔ عدالت نے ایس آئی ٹی کو چار ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے کہا کہ ایس آئی ٹی کو محمود آباد کے موبائل اور دیگر الیکٹرانک گیجٹس کو ضبط کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اب تحقیقات کے لیے محمود آباد کوبلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالت نے محمود آباد کی ضمانت کی شرائط میں نرمی کرتے ہوئے انہیں پوسٹس اپ لوڈ کرنے، آرٹیکل لکھنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

سپریم کورٹ نے 28 مئی کو کہا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی ایس آئی ٹی محمود آباد کے خلاف درج دو ایف آئی آر کے سلسلے میں ہوگی۔ 21 مئی کو عدالت نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیا تھا۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ ہر شخص کو اپنی رائے کہنے کا حق ہے، لیکن اس وقت ایسی فرقہ وارانہ بات لکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ جب ملک کو چیلنجز کا سامنا ہے، شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں، ایسے وقت میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ایسا بیان کیوں دیا گیا؟ خان کی پوسٹ کی زبان پر سوال اٹھاتے ہوئے جسٹس سوریا کانت نے کہا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں۔ وہ دوسروں کو ٹھیس پہنچائے بغیر اپنی بات انتہائی سادہ زبان میں کہہ سکتے تھے، وہ ایسے الفاظ استعمال کر سکتے تھے جو سادہ اور احترام کے حامل ہوں۔

واضح رہے کہ 19 مئی کو پروفیسر خان کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ محمود آباد نے آپریشن سندور پر حب الوطنی پر مبنی بیان دیا تھا، لیکن انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس معاملے میں محمود آباد کو 18 مئی کو دو دن کی پولیس حراست میں بھیج دیا گیا تھا۔ ہریانہ میں پروفیسر کے خلاف دو الگ الگ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔