پرا ن پرتشٹھا کے پیش نظر ایودھیا کے مسلمانوں میں خوف وتشویش
پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی کے باوجود بے چینی کا ماحول،پولیس سے مسلم محلوں کی اضافی سیکورٹی کی درخواست
نئی دہلی ،21جنوری :۔
ایودھیا میں ہونے والے پران پرتشٹھا کی تقریب کے سلسلے میں پورے ملک میں ہندوتو کی لہر چل رہی ہے۔22جنوری کو پورے ملک میں سرکاری سطح پر تیاریاں ہو چکی ہیں ۔شہر ی علاقوں کے علاوہ دیہی علاقوں میں بھی بھگوا رنگ چڑھ گیا ہے۔اس تیاری اور جشن کو لے کر ملک میں مسلمانوں میں جہاں ایک طرح سے بے چینی اور تشویش کا ماحول ہے وہیں ایودھیا میں مندر کے آس پاس رہنے والے مسلمانوں میں بے چینی اور خوف کا عالم ہے۔خیال رہے کہ مندر کے قرب و جوار پانچ کلو میٹر کے دائر ے میں پانچ ہزار سے زیادہ مسلمانوں کی آبادی ہے۔اس خوف اور تشویش کے پیچھے سبب یہ ہے کہ ان مسلمانوں نے 1992 میں رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کا مشاہدہ کیا ہے ،ان کے لئے وہ خوفناک مناظر بھولنا آسان نہیں ہے۔مقامی مسلمانوں کے مطابق مقامی ہندوؤں سے ان کے روابط بہتر ہیں لیکن باہر سے آنے والی بھیڑ کو لے کر ان کے دلوں میں تشویش کی لہر ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق ایودھیا رام جنم بھومی پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والے علاقے کے وحید قریشی نے بتایا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ باہر کے لوگ کیا سوچ رہے ہیں یا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انتظامیہ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ کوئی غیر متوقع واقعہ نہیں ہوگا۔لیکن لاکھوں لوگوں میں سے کچھ عناصر ایسے ہو سکتے ہیں جن کے ارادے غلط ہوں اور وہ کچھ غلط کر سکتے ہیں ۔انہوں نے بتایا، ’’ہمارا خاندان 1990 اور 1992 میں ایودھیا میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا گواہ رہا ہے‘‘۔
اتر پردیش حکومت کی طرف سے امن و سلامتی کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود ایودھیا میں کئی مسلم خاندان ایسے ہیں جو 22 جنوری کو ہونے والے پروگرام کو لے کر پریشان ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایودھیا کی ایک مسلم تنظیم نے مقامی انتظامیہ کو ایودھیا کے مسلم اکثریتی علاقوں اور 1992 کے فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ علاقوں میں حفاظتی انتظامات اور نگرانی بڑھانے کے لیے درخواست دی ہے۔
دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق 16 جنوری کو انجمن تحفظ مساجد و مقابر نامی تنظیم نے ایودھیا ڈویژن کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ایک خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ ’’ایودھیا شہر میں ہندو اور مسلمان پرامن طریقے سے رہتے ہیں مسلمانو ں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ لیکن ماضی میں یہاں باہر سے آنے والے لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے کمیونٹی کو جان، مال اور مذہبی مقامات کا نقصان ہوا ہے۔
"22 جنوری کو پران پرتشٹھا کے دن اور اس کے بعد باہر کے لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ یہاں جمع ہونے کی امید ہے، اس لیے ایودھیا میں رہنے والے مسلمان خوف میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے درخواست کی کہ ماضی کے واقعات کے پیش نظر، آپ سے گزارش ہے کہ ٹہری بازار، ٹین والی مسجد "گول چوراہا سید واڑہ، بیگم پورہ، دوراہا کنواں اور مغل پورہ سمیت دیگر مقامات پر نگرانی بڑھائی جائے اور حفاظتی انتظامات کو مزید بہتر بنایا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے ایودھیا میں مقامی آبادی پر افتتاحی تقریب میں شرکت پر پابندی لگا دی ہے۔ بہت سے مقامی ہندوؤں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایودھیا کے اصل باشندوں کو، جن کا بھگوان رام پر پہلا حق ہے، کو گھر میں رہنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے اور صرف مندر کے انتظامی ٹرسٹ کی طرف سے مدعو مہمان ہی افتتاح میں شرکت کریں گے۔
ایودھیا ضلع میں تقریباً 25 لاکھ مسلمان رہتے ہیں جو کل آبادی کا 14.8 فیصد ہے۔ مندر کے چار کلومیٹر کے دائرے میں تقریباً 5 ہزار مسلمان رہتے ہیں۔
ایودھیا میں سنی سنٹرل وقف بورڈ کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین محمد اعظم قادری نے بتایاکہ ’’کچھ مسلمانوں نے اپنے خاندان کے افراد خاص طور پر بچوں اور خواتین کو لکھنؤ، بارہ بنکی اور دیگر قریبی اضلاع میں رشتہ داروں کے گھر بھیج دیا ہے۔ "ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ انتظامیہ نے ہمیں تحفظ کی ضمانت دی ہے، لیکن 1990 اور 1992 کے فرقہ وارانہ واقعات کے خوف کو بہت سے لوگوں کے لیے بھولنا مشکل ہے۔
خیال رہے کہ 22 جنوری کو ہونے والے رام مندر پران پرتشٹھا پروگرام میں نہ صرف وزیر اعظم اور صدر مملکت شرکت کریں گے بلکہ ان کے علاوہ کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ، سینئر لیڈران، پارٹی کارکنان اور دیگر بڑی تعداد میں تقریباً 8 ہزارلوگ شرکت کریں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے ایودھیا میں مقامی آبادی پر افتتاحی تقریب میں شرکت پر پابندی لگا دی ہے۔ بہت سے مقامی ہندوؤں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایودھیا کے اصل باشندوں کو، جن کا بھگوان رام پر پہلا حق ہے، کو گھر میں رہنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے اور صرف مندر کے انتظامی ٹرسٹ کی طرف سے مدعو مہمان ہی افتتاح میں شرکت کریں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی حکومت 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ایودھیا کی ترقی کا مظاہرہ کرنا چاہتی ہے اور رام مندر کے نام پر ووٹ مانگنا چاہتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے 2019 میں جب اس نے انتخابات کے دوران پلوامہ حملے کا فائدہ اٹھایا، بی جے پی ایک بار پھر بابری مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر کے لیے اپنی طویل تحریک کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرر ہی ہے۔