پانچویں کلاس کے بچے کا سماجی اصلاح سے متعلق پوچھے گئے سوال کا دانشمندانہ جواب
نئی دہلی ،22مارچ :
آج کا دور موبائل اور انٹرنیٹ کادور ہے،خاندان میں جتنے فرد ہیں گھر میں اتنے موبائل فون ہیں ،لوگوں کا زیادہ تر وقت موبائل اور انٹر نیٹ پر ہی گزرتا ہے ،ایک لمحے کے لئے بھی موبائل سے دور نہیں ہوتے،گھر میں موبائلوں کا راج ہے اس لئے گھر میں رہنے والے بچے بھی بڑوں کے ہی نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔والدین کو اکثر شکایت ہوتی ہے کہ ان کے بچے موبائل میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں،تعلیم پر توجہ نہیں دیتے۔ والدین کو بچوں کی ذہنی نشو نما کی فکر ستاتی رہتی ہے ۔لیکن ان شکایتوں کے درمیان بھی کچھ والدین اور خاندان میں بچوں کی ذہنی نشو نما اور ان کی فکری بالیدگی پر خوب تر توجہ دی جا رہی ہے اور اس کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔ایسا ہی ایک معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے جس میں پانچویں کلاس کے ایک ننھے سے بچے نے اصلاح معاشرہ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا جواب جس خوبصورتی کے ساتھ دیا ہے وہ اس کی سماجی فکری بلندی کا غماز ہے،جس کی توقع ایک پانچویں کلاس کے بچے سے تو ہرگز نہیں کی جا سکتی ۔
بچے کے ذریعہ دیئے گئے سوال کے جواب کو ٹوئٹر صارف مہیشور پیری نے شیئر کیا ہے ۔جواب دینے والا بچہ ان کا اپنا بچہ ہے۔ انہوں نے اپنے بچے کی جوابی کاپی شیئر کی ہے ۔ ان کے بیٹے کے کلاس 5 کے امتحانی پرچے میں آزادی سے پہلے کے دور میں سماجی برائیوں سے متعلق سوال پوچھا گیا۔ سوال میں پوچھا گیا ہے کہ اگر آپ آزادی سے پہلے کے دور کے سماجی مصلح ہوتے تو اس وقت ہندوستان کی سماجی پسماندگی کودور کرنے کے لئے کس سماجی برائی کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ،اور واضاحت کریں کیوں ؟
پانچویں جماعت کے بچے نے اس مشکل سوال کا جواب بہت ہی ذہانت اور سمجھداری سے دیاہے ۔بچے نے جواب میں لکھا کہ ‘میں بیوہ خواتین کی (دوبارہ شادی )ری میرج ایکٹ شروع کرنا پسند کرتا ۔اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی عورت بیوہ ہو جاتی ہے تو وہ یا تو ستی ہو سکتی ہے یا سفید ساڑھی پہن سکتی ہے، بال باندھ کر باہر نہیں جا سکتی۔ اگر یہ بیوائیں دوبارہ شادی کرنے کے قابل ہوتیں تو ان کی زندگی بہت بہتر اور خوشگوار ہوتی۔
بچے کے اس بلندی خیال کے عکاس جواب پر استاد نے اپنے تبصرہ میں ‘بہت اچھا جواب’ لکھا ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس بچے کی ذہانت اور سماجی فہم و ادراک کی خوب تعریف کی گئی ہے ۔