ٹی وی ،موبائل اور سوشل میڈیا بچوں کی معصومیت تباہ کر رہے ہیں

سماج اور معاشرے میں موبائل  اور انٹر نیٹ کے منفی اثرات پر الہ آباد ہائی کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،26 جولائی:۔

یقیناً موبائل آج ہماری زندگی کا جز لاینفک بن چکا ہے ،مگر جتنا یہ ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی کو آسان اور سہولت بخش بنانے میں معاون ہے اتنا ہی یہ ہمارے بچوں کیلئے خطرناک بنتا جا رہا ہے ۔بچوں کا زیادہ تر وقت ٹی وی ،انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر گزر رہا ہے ۔کتابوں میں رشتہ ختم ہو رہا ہے ،بڑے بزرگوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھنا ،گفتگو کرنا تو اب پرانے دنوں کی یادیں ہو گئی ہیں اب تو بچے موبائل ،انٹر نیٹ اور ٹی وی  میں اس قدر منہمک ہو گئے ہیں کہ کھیل کود سے بھی رشتہ ختم ہو چکا ہے ۔ یہ نہ صرف ہمارے بچوں کو بیمار اور ذہنی طور پر کند بنا رہا ہے بلکہ ان کا بچپن بھی ان سے چھین رہا ہے ،جرائم اور منشیات کی لت میں مبتلا کر رہا ہے ،جنسی بے راہ روی  کا شکار بنانے میں حد درجہ معاون و مدد گار بنتا جا رہاہے ۔اس بات کا اعتراف محققین اور تحقیقاتی اداروں نے اپنی رپورٹوں اور سروے میں کیا ہے۔اسی سلسلے میں گزشتہ روز جمعہ کو الہ آباد ہائی کورٹ کا ایک تبصرہ انتہائی قابل غور اور والدین کے لئے باعث تشویش ہے ۔الہ آباد ہائی کورٹ نے بچوں اور انٹر نٹ ،ٹی وی اور سوشل میڈیا کے تعلق سے یہ تبصرہ ایک کیس کی سماعت کے دوران کیا۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کو بچوں پر ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ میڈیم بہت چھوٹی عمر میں بچوں کی معصومیت کو تباہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے بے قابو ہونے کی وجہ سے حکومت بھی اس کے اثرات کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔

خیال رہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں جسٹس سدھارتھ کی سنگل بنچ نے یہ تبصرہ ایک نابالغ کی طرف سے دائر کی گئی فوجداری نظر ثانی کی درخواست پر کیا ہے۔ عرضی میں جوینائل جسٹس بورڈ اور کوشامبی کی پاکسو عدالت کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا تھا کہ نابالغ لڑکی کے ساتھ رضامندی سے جسمانی تعلقات کے مبینہ معاملے میں نابالغ پر بالغ کی حیثیت سے مقدمہ چلایا جائے۔ عدالت نے کہا کہ ریکارڈ میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ درخواست گزار نابالغ شکاری ہے۔ اور بغیر کسی اشتعال کے جرم کو دہرانے کا رجحان رکھتا ہے۔ صرف اس لیے کہ اس نے ایک گھناؤنا جرم کیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ درخواست گزار نابالغ کو بالغ کے برابر نہیں سمجھا جا سکتا۔

عدالت نے کہا کہ نابالغ درخواست گزار پر جووینائل جسٹس بورڈ کے ذریعہ نابالغ کے طور پر مقدمہ چلایا جانا چاہئے۔ نظرثانی درخواست پر غور کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ عدالت نے نفسیاتی تشخیص کی رپورٹ کا نوٹس لیا ہے۔ جس میں یہ پتہ چلا ہے کہ جائزہ لینے والے، ایک 16 سالہ نوجوان کا آئی کیو 6 سال کا ہے ۔جبکہ اس نے نابالغہ کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کئے تھے اس وقت اس کی عمر سولہ سال تھی مگر وہ ذہنی طور پر بالغ نہیں تھا۔اس لئے اسے نابالغ کے طور پر سمجھا جائے اور کیس بھی اسی طرح چلایا جائے ۔