ٹفن باکس میں نان ویجیٹیرن کھانا لانے کے الزام میں اسکول سے نکالے گئے بچے کی ماں کی محنت رنگ لائی

  سی بی ایس سے منسلک دوسرے اسکول میں داخلہ کرانے کی ہدایت ،ہلٹن کانوینٹ اسکول  امروہ سے نکالے گئے 7 سالہ  مسلم بچےکے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے امروہہ کے ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت دی

نئی دہلی ،20 دسمبر :۔

امروہہ کے ہلٹن کانوینٹ اسکول  میں ایک سات سالہ مسلم بچے کو اسکول سے اس لئے نکال دیا گیا تھا کہ اس بچے پر ٹفن باکس میں نان ویجیٹیرین کھانا لانے کا الزم عائد کیا گیا تھا۔یہی نہیں اس بچے کو اسکول کے پرنسپل نے مذہبی شناخت پر نشانہ بنایا اور ذلیل و خوار کر کے اسکول سے نکال دیا۔نہ صرف اس سات سالہ بچے کو بلکہ اسکے ایک بھائی اور بہن کو بھی اسکول سے خارج کر دیا۔یہ معاملہ رواں سال ستمبر کا ہے۔ واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوا تھا جس کے بعد متعلقہ محکمہ کے اہلکاروں کو تحقیقات کی ہدایت دی گئی تھی ۔ اپنے بچوں کی  تعلیم کو لے کر ماں کو تشویش ہوئی اور ماں صابرہ نے بچوں کے مستقبل کیلئے ہائی کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔

الہ آباد ہائی کورٹ  نے اس معاملے میں گزشتہ روز منگل کواہم فیصلہ سنایا ۔ جسٹس سدھارتھ اور سبھاش چندر شرما کی ایک ڈویژن بنچ نے امروہہ کے ضلع مجسٹریٹ کو ہدایت دی  کہ وہ تینوں بچوں (لڑکے اور اس کے بہن بھائیوں) کو 2 ہفتوں کے اندر کسی دوسرے CBSE سے منسلک اسکول میں داخل کرائیں اور ایک حلف نامہ داخل کریں۔ ایسا کرنے میں ناکام رہنے پر، ڈی ایم کو اگلی سماعت (6 جنوری) میں حاضر ہونا پڑے گا۔

اس واقعے کے بعد، اسکول کے پرنسپل نے کلاس 3 کے طالب علم اور اس کے دو بہن بھائیوں کو ستمبر  میں اسکول سے نکال دیا تھا۔  اسکول کے شدت پسند اور متنفر پرنسپل نے اس معصوم بچے پر  مذہبی بنیاد پرستی کا الزام عائد کیا یہی نہیں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مندروں کو تباہ کر نے کی دھمکی دی تھی۔ پرنسپل نے لڑکے کی پرورش پر بھی سوالات اٹھائےتھے۔

لڑکے کی ماں اور اسکول پرنسپل کے درمیان ہونے والی بات چیت کی مبینہ ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس کے بعد سرکاری حکام نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے بعد میں پرنسپل کو کلین چٹ دے دی لیکن صرف ان کی طرف سے استعمال کی گئی نامناسب زبان پر انہیں سرزنش کی۔

اں (صابرہ) اور اس کے تین بچوں نے مختلف راحتوں کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، اور یہ دعویٰ کیا کہ اسکول کے طرز عمل سے ان کا تعلیم کا حق متاثر ہوا ہے۔ اگرچہ ماں نے الزام لگایا کہ پرنسپل نے اس کے بچے کو مارا پیٹا اور اسے خالی کمرے میں بند کر دیا، لیکن پرنسپل نے ان الزامات سے انکار کیا۔ٹفن باکس میں نان ویجیٹیرن کھانا لانے کی بات کی ماں نے سختی سے تردید کی تھی۔

اپنی درخواست میں، درخواست گزاروں نے کہا کہ اس پورے واقعہ نے ان کے بچے کی نازک بچپن کی نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ مستقبل میں واقعات کے جو بھی سلسلے ہوں گے اس کے تاحیات نتائج کا امکان ہے۔ایڈووکیٹ عمر ضامن کے توسط سے دائر درخواست میں  مطالبہ کیا گیا تھا کہ

  1. ریاست اتر پردیش کو ہدایت دیں کہ وہ درخواست گزاروں کے نمبر 2، 3 اور 4 کو ان کے گھر کے قریب ایک متبادل اسکول میں داخل کرے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
  2. ریاستی حکومت اور دیگر سرکاری حکام کو درخواست دہندگان نمبر 2، 3 اور 4 کے خلاف ہراساں کرنے، ناروا سلوک اور امتیازی سلوک کے لیے اسکول پرنسپل سمیت جواب دہندگان کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت کریں۔
  3. متعلقہ ایس ایچ او کو ہدایت دیں کہ وہ والدہ کی جانب سے کی گئی شکایت کے تناظر میں اسکول کے پرنسپل سمیت مدعا علیہان کے خلاف ایف آئی آر درج کریں۔
  4. ریاست اتر پردیش کو ہدایت دیں کہ وہ درخواست گزار بچوں کو اسکول کے پرنسپل سمیت جواب دہندگان کی کارروائیوں کی وجہ سے ان کی تعلیمی ترقی کے نقصان کے لیے مناسب معاوضہ ادا کرے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے بچوں کی تعلیم کو سنجیدگی سے لیا اور ان کی مدد کرتے ہوئےان بچوں کی تعلیمی بندو بست کی ہدایت جاری کی ہے۔