ٹرانسجینڈر کے موضوع پر مبنی کتاب’ ناجنس اور اسلام‘ نامی کتاب کا اجرا،اہم شخصیات کا خطاب

دعوت ویب ڈیسک

نئی دہلی ،11 مئی:۔

گزشتہ روز جمعرات کو بعد نماز مغرب جماعت اسلامی ہند کے میڈیا ہال  میں ایک  الگ اور خاص طور پر اردو میں انتہائی کم یاب موضوع  ہم جنس پرستی کے موضوع پر مبنی کتاب  "ناجنس اور اسلام : انحرافی جنسی رویوں(+LGBTQAI) کا نفسی معاشرتی بیانیہ” کے رسم اجراء کی تقریب عمل میں آئی۔جس میں امیر جماعت  اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی ،ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور دیگر اہم  شخصیات نے نہ صرف شرکت کی بلکہ اس موضوع اور کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اس کتاب کے مصنف ہیں  سینٹر فار ریسرچ اینڈ اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رضوان  ۔ اس تقریب سے خطاب کرنے والوں میں  صاحب کتاب ڈاکٹر محمد رضوان  کے علاوہ  ڈاکٹر محی الدین غازی، ایس امیر الحسن،  ڈاکٹر ظفر الاسلام خان، سید سعادت اللّٰہ حسینی شامل تھے۔مقررین نے اس موضوع پر انتہائی مفید  اور پر مغز خطاب کیا اور کتاب کو  اس عصری فتنے کو سمجھنے ،اس کے سماجی مضمرات کو جاننے کیلئے انتہائی مفید قرار دیا۔

ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نےنا جنس کے وجود اور تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے  اپنے خطاب میں کہا کہ "مدون 7 سو سالہ تاریخ میں LGBTQAI کو پچھلے دو سو برسوں میں زیادہ پرموٹ کیا گیا ہے۔ انقلاب فرانس 1917 کے بعد کیتھولک چرچ کے زوال سے اس کا عروج ہوا۔ پہلے اس طرح کی  غیر اخلاقی حرکتوں پر پابندی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ”مغرب کے کئی ملکوں میں اسٹیٹ بچوں کو گود لے کر باضابطہ ان کی پرورش کرتا ہے، ایسے بچے معاشرے کے لیے کیسے کار آمد ہوں گے جن کی پرورش ان کی ماؤں کے گود میں نہیں ہوئی ہے؟ افسوس کہ ہمارے یہاں کہ عدالتیں بھی وقتاً فوقتاً اس طرح کے لوگوں کے حق میں فیصلے دے دیتی ہیں۔ 2008 کے بعد سے کسی خاص مہینے میں یہ لوگ دہلی کی سڑکوں پر اپنا جلوس بھی نکالتے ہیں۔ اس کے باوجود مغربی ممالک کی بنسبت ہمارا ملک اس قبیح اور شنیع فعل سے بہت حد تک محفوظ ہے۔

انہوں نے کتاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عصرِ حاضر کے اس بڑے فتنے کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب نہایت ہی مفید اور کار آمد ہے۔ کیوں کہ اس میں صرف اسلامی نقطۃ نظر ہی نہیں بلکہ اہل کتاب میں سے عیسائیت اور چرچ وغیرہ کے نقطۂ نظر کو بھی شمولیت دی گئی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں LGBTQAI کے حاملین، مؤیدین اور معتقدین کے دلائل پیش کرکے ان کا الزامی جواب بھی دیا گیا ہے، میرا خیال سے یہ حصہ پوری کتاب کا ماحصل ہے۔

انہوں نے موجود حالات میں اس فتنے کے عروج اور بحث میں اضافہ کے موضوع پر بھی روشنی ڈالی اور اس کے وجوہات کی طرف اشارہ کیا کہ ہمارے کچھ فکشن رائٹرس، ایکٹوسٹ، ہیومن رائیٹس کے حاملین، مؤدین اور پیروکار بحیثیتِ انسان ان کے حق حقوق کی آواز بلند کرتے کرتے خود انہیں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ یہ بہت ہی زیادہ افسوسناک صورت حال ہے۔ یقیناً اس طرح کے لوگوں کو بحیثیتِ انسان اسلام نے بہت سارے اختیارات دیئے ہیں اور ڈاکٹر محی الدین غازی کے بقول "ایسے لوگوں کو تو اسلام نے باقاعدہ شادی کرنے کے حقوق عطا کیے ہیں ۔ انہیں بھی عزت کے ساتھ جینے اور باوقار پیشہ اختیار کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ لیکن ہر اسٹیٹ اور ریاست کے اپنے اپنے خود ساختہ قوانین ہوتے ہیں جس کی وجہ سے کئی طرح کی پریشانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔رسم اجرا تقریب میں سامعین نے بھی خاطر خواہ تعداد میں شرکت کی جس میں دہلی کی مختلف یونیور سٹیوں میں زیر تعلیم  طلبا اور ریسرچ اسکالر بھی موجود تھے۔