ٹرائل جج بسا اوقات اپنے کریئر کیلئے بے قصوروں کو بھی قصور وار قرار دیتے ہیں

  الہ آباد ہائی کورٹ کا تبصرہ،غلط طریقے سے چلائے گئے مقدمات کے متاثرین کو معاضہ دیئے جانے کی وکالت

نئی دہلی ،04 نومبر :۔

متعدد نچلی عدالتوں کے ذریعہ مجرمانہ فیصلوں پر اعتراض کیاجاتا رہا ہے ۔بسا اوقات قصور وار نہ ہونے کے باوجود بے قصور کو مجرم قرار دیا جاتا ہے جس پر سوالات اٹھتے رہے ہیں لیکن حالیہ دنوں میں اس طرح کے فیصلے دینے والے ججوں پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اہم تبصرہ کیا ہے۔الہ آباد ہائی کورٹ کا  واضح طور پر کہنا ہے کہ بسا اوقات ٹرائل جج اپنے کریئر کیلئے بے قصوروں کو بھی قصور وار قرار دیتے ہیں ، جس سے ایک بے قصور کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق الہ آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں ایک نیا قانون لانے پر زوردیا جس کے تحت فوجداری معاملوں  میں غلط طریقے سے  چلائے گئے  مقدمے سے متاثر لوگوں کو معاوضہ دیاجائے  جیسا کہ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ بسا اوقات ٹرائل کورٹ کے جج صرف اپنی ساکھ یا کیریئر کے امکانات کو بچانے کے لیے کام کرتے ہیں، اور بے گناہ کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔

جسٹس سدھارتھ اور جسٹس سید قمر حسن رضوی نے یہ ریمارکس ایک ایسے شخص کو بری کرتے ہوئے دیے جس پر 2009 میں اپنی بیوی کے قتل کا الزام تھا۔  عدالت نے کہا کہ یہ شخص ضمانت پر رہا ہونے سے پہلے ہی تقریباً 13 سال جیل میں گزار چکا ہے، حالانکہ اسے بری ہونا چاہیے تھا۔عدالت نے کہا کہ اسے بھاری معاوضہ دیا جانا چاہئے، لیکن یہ بھی کہا کہ اس طرح کا معاوضہ دینے کے لئے کوئی مناسب قانونی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔

عدالت نے مزید کہا، "لاء کمیشن کی 277 ویں رپورٹ (جس میں ایسے دعووں سے نمٹنے کے لیے خصوصی عدالتوں کے قیام سمیت غلط مقدمے سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا ہے) کو حکومت کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ نچلی عدالتیں اکثر  گھناؤنے جرائم ملزموں کو مجرم قرار  دیتی ہیں  یہاں تک کہ بظاہر بری ہونے کے معاملات میں،بھی  وہ ایسے مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں کے  سے نہیں ڈر تے ہیں اور صرف اپنی ذاتی ساکھ اور (کیرئیر) کو بچانے کے لیے۔اس طرح کے فیصلے اور جرم کا قصوروار قرار دیتے ہیں۔