يوم نكبہ – 72 سال ملك بدرى كے

عماره رضوان

فلسطينوں كى زندگى ميں 15 مئى كا دن ہر سال آتا ہے اور ہر بار نئے زخم دے كر چلا جاتا ہے، كتنى آنكهيں خشك ہو گئيں صرف اس انتظار ميں كہ ايك دن آئے گا جب ہم اپنے گاؤں اور شہر كو لوٹيں گے اور كتنے لوگ اپنے دلوں ميں يہى تمنا لیے ہوئے اپنے رب كے حضور حاضر ہوگئے۔

غزّه كى پٹّى كے شمال ميں بيت حانون شہر ميں ايك 86 سالہ خاتون عائشہ زويدى رہتى ہيں، ان كا آبائى گاؤں "دمره” ان كے اس عارضى قيام گاه بيت حانون سے صرف 8 كلوميٹر كى دورى پر واقع ہے۔ جب ان كے گاؤں سے لوگوں كو جبراً نكالا گيا تو اس وقت ان كى عمر صرف 14 سال تهى۔ اب ان كے آبائى گاؤں اور ان كے درميان ايك كانٹوں بهرى ديوار ہے اور اس كے اردگرد كچھ مسلّح  فوجى ہیں، جو ہر وقت فلسطينیوں پر بندوقيں تانے رہتے ہيں۔

عائشہ زويدى كے عزائم اس وقت بهى اسى طرح تروتازه ہيں جيسے كہ بالكل نوعمرى ميں تهے۔ وه اب بهى پراميد ہيں كہ دُمره ميں ان كى واپسى ضرور ہو گى۔ عائشہ اب بهى ’’دمره‘‘ كا پورا نقشہ نئى نسل كے سامنے كهينچتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ميرے گهر كے سامنے ہى مسجد تهى، مسجد كے صحن ميں ايك كهجور كادرخت اور اس کے آگے گاؤں كا وه كنواں، جہاں سے سب لوگ پانى بهر كر لے جاتے تهے اور زيتون اور انجير كے باغات جو گاؤں سے ذرا ہٹ كر تهے۔ يہ بتاتے ہوئے ان كى آنكهوں ميں آنسؤوں كا ايك سيلاب باہر آنے كو بے تاب ہوتا ہے، جسے وه اپنے دوپٹے سے صاف كرديتى ہيں۔ بہتّر سال گزرنے كے بعد بهى ان كے حوصلے پست نہيں ہوئے ہيں، وه ان عزائم اور حوصلوں كو دوسرى اور تيسرى نسل ميں برابر منتقل كرتى آرہى ہيں۔

عائشہ زويدى كا حافظہ بہت قوى ہے، نكبہ كے ايام اور صہيونيوں كے جرائم وه ايسے بيان كرتى ہيں جيسے كل كى بات ہو، بڑى تكليف ده ياديں ہيں، جو ان كے حافظے ميں محفوظ ہیں۔ لاكهوں فلسطينیوں كا شہر بدر ہونا، شہروں، قصبوں اور گاؤوں كا نيست ونابود ہونا اور ہزاروں فلسطينیوں كا اسرائيلى دہشت گردوں كےہاتهوں تہِ تيغ ہونا، يہ سب ان كے حافظے سے ابهى بهى محو نہيں ہوا ہے۔ حيفا اور دير ياسين كے جرائم كو ياد كركے وه بلك پڑتى ہيں كہ كس طرح سے گهروں كو زميں بوس كيا جا رہا تها اور كهڑى فصلوں كو آگ كے حوالے كيا جا رہاتها۔

گهر سے نكالا جانا اور اس گاؤں كو خيرآباد كہنا، جہاں سے پورى زندگى وابستہ ہو بہت سخت مرحلہ تها۔ ہرچہار جانب موت كا ننگا ناچ ہو رہا تها، صہيونى يكے بعد ديگرے گاؤں كے گاؤں برباد كررہے تهے اور ان  كے مكينوں كو نامعلوم منزل كى طرف ہانك رہے تهے۔ جب يہ درندے پورے لاو لشكر كے ساتھ ميرے گاؤں ’’دمره‘‘ ميں داخل ہوئے تو نوجوانوں نے اپنے گهريلو  ہتهياروں سے ان كا مقابلہ كيا اور ان ميں سے اكثر شہيد ہو گئے، ليكن ہم خواتين اور بچيوں كو غزّه كى جانب روانہ كرديا، تاكہ ہمارى عزت وناموس پر حرف نہ آئے۔ حيفا ہو يا بيت حانون سب فلسطينیوں كى سرزمين ہیں، ہم ضرور واپس ہوں گے، برطانيہ نے عيارى و مكارى سے ہمارے ملك كو يہوديوں كے حوالے كرديا ہے مگر ہم ضرور اسے واپس لے كر رہيں گے۔

عائشہ زويدى اندر جاكر ايك لوہے كى كنجى لاتى ہيں اور كہتى ہيں کہ يہ ميرے گهر كى كنجى ہے، اسے ميں نے بڑا سنبهال كرركها ہے، اگر ميرى زندگى ميں مجهے واپسى كى نعمت ميسر نہ آئى تو ميں كنجى اپنے بيٹوں اور پوتوں كے حوالے كركے جاؤں گى اور وه ميرے اس خواب كى تعبير کریں گے۔ اپنے ملك ميں واپسى ہمارا شرعى وقانونى حق ہے جسے ہم لے كر رہيں گے، دنيا كى كوئى طاقت ہميں ہمارے اس حق سے محروم نہيں كرسكتى۔

أم حسن عائشہ زويدى  بڑے فخر سے بيان كرتى ہيں كہ ميرے 100 سے زائد پوتے اور نواسے ہيں اور ميں ان كو بيت حانون كى اس پہاڑى پر لے جاكر ’’دمره‘‘ كے اپنے گاؤں كا ديدار كراتى ہوں تاكہ ان كى نگاہوں ميں اپنا گاؤں بسا رہے اور وہ اس کی راه ميں وه جدّوجہد كرسكيں۔ ان كا گاؤں اب فوجى چهاؤنى ميں تبديل ہو چكا ہے اور گاؤں ميں اب يہودى كالونيا ں بسائى جا رہى ہيں، مگر وه اس سے مايوس نہيں ہيں۔ زويدى كہتى ہيں كہ يہوديوں كى يہ بلند و بالا عمارتيں اور اسلحوں كے ذخائر فلسطينیوں كے كام آئيں گے۔

فلسطينى اس بار يوم نكبہ كا احيا اس وقت كر رہے ہيں، جب حالات ان كے بالكل موافق نہيں ہيں۔ ايك طرف امريكہ بہادرنے شہر مقدس  قُدس كو اسرائيل كا دارالحكومت تسليم كرليا ہے اور اپنا سفارت خانہ بهى تل ابيب سے قدس ميں منتقل كرديا ہے، تو دوسرى طرف عرب ممالك  نے بهى امريكى فيصلے پر رضامندی کا اظہار كر ديا ہے اور صدى كى ڈيل كے سائے ميں فلسطينیوں كو يہ سمجهانے كى كوشش كى جارہى ہے كى وه بهى اسرائيل كے ساتھ اپنے تعلقات استواركرليں اور موجوده حالات سے سمجهوتا كرليں۔

ايسے ميں فلسطينى قوم كے صبروضبط اور ان كى عزيمت كا امتحان ہے كہ وه كب تك اس طوفان كا مقابلہ كرسكتے ہيں۔ 72 سال كا عرصہ بہت طويل ہوتا ہے اور اس عرصہ ميں قوميں سپر ڈال ديتى ہيں اور حالات سے سمجهوتا كرليتى ہيں، ليكن فلسطينى قوم نے ابهى ہمت نہيں ہارى ہے، ان كے عزائم بلند ہيں اور حوصلے ناقابل شكست۔ تاريخ كے سب سے بڑے محاصرے نے بهى ان كے حوصلوں كو شكست نہيں دى ہے، غزّه مكمل تيره سال سے حصار ميں ہے مگر پهر بهى دشمن كى آنكھ كے لیے شہتير بنا ہوا ہے۔

تحريك مزاحمت فلسطين (حماس) نے كسى بهى طرح كى ڈيل كو مسترد كرديا ہے۔ حماس كا كہنا ہے كہ مسئلۂ فلسطين كى تين اساسيات ہيں جس سےسرِ مُو انحراف نہیں كيا جاسكتا، جس ميں قدس كى مركزى حيثيت ہے اور فلسطينیوں كى وطن واپسى۔ حماس نے امريكہ كے ذريعے لائے گئے ’’صدى كى ڈيل‘‘ كو فلسطینيوں كى پيٹھ ميں چهرا گھونپنے كے مترادف قرار ديا ہے اور اس كو مكمل طور پر مسترد  كرديا ہے۔

عالمى طور پر امت مسلمہ بہت ہى ناگفتہ بہ كيفيت سے دوچار ہے۔ ايسے ميں فلسطينى قوم كا پامردى سے غاصب اسرائيليوں كا مقابلہ كرنا اور اپنے حقوق كے لیے جدوجہد كرنا اس بات كى دليل ہے كہ اس قوم كو كلى طور پر اپنے حقوق كا ادراك ہے اور وه اس سلسلے ميں کی جانے والى سازشوں سے بهى اچهى طر ح واقف ہيں۔ توقع تو يہى كى جانى چاہیے كہ وه اپنى يہ جد وجہد  كاميابى كے منزل تك پہنچائيں گے۔

مضمون نگار نئی دہلی میں سینیئر سیکنڈری اسکول کی طالبہ ہیں.