’ووٹ جہاد‘ کے بیانات سے سماج میں مذہبی اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ
شرد پوار نے کہا کہ بی جے پی انتخابی سیاست کے لیے مذہب کا استعمال کرکے سماج میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے، جو قابل مذمت ہے
نئی دہلی ،پونے ، 16 نومبر:-۔
مہاراشٹر میں الیکشن کی گہما گہمی ہے۔تمام پارٹیوں کی جانب سے انتخابی ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دریں اثنا بی جے پی نے بٹیں گے تو کٹیں گے کے نعرہ کو لے کر مہاراشٹر میں تنازعہ کا شکار ہو گئی ہے اور اس کے اور اتحادی پارٹیوں کے درمیان یہ نعر گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔اس نعرے کی وضاحت کرتے اور رائے دہندگان کو سمجھانے میں مصروف بی جے پی نے اپنا پرانا مفروضہ پھر سےچھوڑ دیا ہے۔ لوجہاد،لینڈ جہاد کے مفروضے کی طرز پر ووٹ جہاد کی بیان بازی سے ہندو اکثریت ووٹوں کو لبھانے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہو گئی ہے۔مہاراشٹر کے وزیر داخلہ دویندر فرنویس کے ذریعہ ووٹ جہاد کی بیان بازی کی گئی ہے اور اب مرکزی قیادت نے بھی اسی مفروضے کو مزید ہوا دی ہے۔
بی جے پی کے ‘ووٹ جہاد’ کے بیانات پر اپوزیشن کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا ہے۔ این سی پی کے سینئر رہنما اور سر براہ شرد پوار نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ووٹ جہاد کی بیان بازی سے سماج میں مذہبی اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ اس سے مہاراشٹر کی رواداری کی روایت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ این سی پی کے سینئر لیڈر شرد پوار نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ انتخابی سیاست کے لیے مذہب کا استعمال کرکے سماج میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، جو قابل مذمت ہے۔
رپورٹ کے مطابق وہ پونے میں صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ، جہاد کا لفظ دیویندر فرنویس نے وضع کیا تھا۔ کچھ حلقوں میں اقلیت نے مہاوکاس اگھاڑی کو ووٹ دیا۔ پونے کے کچھ حصوں کا ایک مخصوص معاشرہ ہے، ہندو معاشرہ۔ اگر وہ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں تو ہم اس کے عادی ہیں۔ ایسا ہی ہوتا تھا۔ لیکن اس کا مطلب جہاد نہیں ہے۔
فرنویس نے جہاد کا لفظ استعمال کیا اور فرنویس اور ان کے ساتھیوں نے اس الیکشن کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی۔ بی جے پی ہندو مسلم صرف اس لیے کر رہی ہے کہ انہیں یقین ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ پوار نے کہا کہ یہ لوگ ہندوو ٔں اور مسلمانوں کے درمیان ماحول کو خراب کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سال مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں تین سہ رخی مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بی جے پی-شیو سینا (شندے دھڑا) این سی پی (اجیت پوار دھڑا) مہا یوتی۔ دوسرے مہاوکاس اگھاڑی (کانگریس-شیو سینا (ادھو ٹھاکرے گروپ)) این سی پی (شرد پوار گروپ) ان کے علاوہ اور مختلف پارٹیاں اور گروپس جیسے ونچیت بہوجن اگھاڑی سخت مقابلے میں ہیں۔
اس پس منظر میں جبکہ ہر پارٹی کی کامیابی کے دعوے کر رہی ہے۔ جب شرد پوار سے صحافیوں نے این سی پی کو ملنے والی سیٹوں کے بارے میں پوچھا تو پوار نے جواب دیا کہ میں نجومی نہیں ہوں۔ کون کتنی سیٹیں جیتتا ہے یہ نتائج آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔
شرد پوار نے کہا کہ ، میں نے کئی وزرائے اعظم کی تقاریر سنی۔ انتخابی دور میں میں نے نہرو کی تقریر پونے میں اس وقت سنی جب میں کالج میں پڑھتا تھا۔ اس کے بعد میں نے تمام وزرائے اعظم کی تقاریر سنی۔ وہ سب مستقبل کی ترقی کیسی ہوگی؟ اس کےلیے کیا اقدامات کیے جائیں گے یہ سب پیش کرتے ہوئے دیکھا۔ لیکن یہ پہلے وزیر اعظم مودی ہیں۔ شرد پوار نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریروں پر تنقید کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ اب 400 پار کیوں نہیں؟