وقف کے تحفظ کی لڑائی ہمارے وجود کی لڑائی ہے،مسلمانوں کو شریعت میں مداخلت قطعی بر داشت نہیں: مولانا ارشد مدنی

نئی دہلی ،23 اپریل :۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام گزشتہ روز 22؍اپریل کو  دہلی کے تالکٹورا اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والی ایک روزہ ’’ تحفظ اوقاف کانفرنس ‘‘ میں ملک کے کئی بڑے سیاسی لیڈروں اور مختلف مکتب فکر کے علما نے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر وقف قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کی اور  ملی اتحاد کا مظاہرہ کیا ۔اس کانفریس میں صدر جمعیتہ علماء ہند کے صدر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا کے نائب صدر مولانا ارشد مدنی کو شامل ہونا تھا ۔ لیکن وہ صحت اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے اس موقع پر انہوں نے ایک پیغام دیا جس میں وقف کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا گیا۔  اپنے اس پیغام میں جمعیۃ علما ہند نے وقف قانون کے خلاف جاری لڑائی کو مسلمانوں کے وجود کی لڑائی سے تعبیر کیا ۔جمعیۃ نے کہا  کہ مسلمان ہر چیز سے سمجھوتا کر سکتا ہے لیکن اپنی شریعت میں کسی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کرسکتا ۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ  وقف کے تحفظ کی لڑائی ہمارے وجود کی لڑائی ہے اور وقف ترمیمی قانون ہمارے مذہب میں براہ راست مداخلت ہے۔ وقف کو بچانا ہمارا مذہبی فریضہ ہے ۔مسلمان ہر چیز سے سمجھوتہ کر سکتا ہے لیکن اپنی شریعت میں کسی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتا ہے ۔ اس لیے ہم وقف قانون 2025 کو کلی طور پر مستر د کرتے ہیں ۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اس لڑائی میں پورا سیاسی اپو زیشن اور ملک کی تمام ملی تنظیمیں اور ادارے اور لوگ متحد ہ ہیں ۔ ہمیں خدا کی ذات پر مکمل یقین ہے کہ اگر ہم نے مل کر یہ لڑائی لڑی تو کامیابی ہمارا مقدر ہوگی اور اگر ہم اتحاد اور اجتماعیت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں کوئی طاقت یا حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی۔

ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قو میں مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اپنی فہم وفراست ، تدبر اور حکمت عملی سے کامیابی کی ایک نئی تاریخ رقم کرتی رہی ہیں۔ اگر آئین کو بچانا ہے تو اس وقف قانون 2025 کو کلی طور پر ختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ ہماری نظر میں آئین جمہوریت کی بنیاد کا وہ پتھر ہے کہ اگر اسے اس کی جگہ سے ہلایا گیا تو پھر جمہوریت کی یہ عظیم عمارت کھڑی نہ رہ سکے گی ۔ اس لیے ہم اکثر کہتے ہیں کہ آئین بچے گا تو ملک بچے گا۔

ہم حکومت کو یہ بتادینا چاہتے ہیں کہ مسلمان کسی بھی قیمت پر اس وقف قانون کی تائید نہیں کر سکتا ہے کیوں کہ یہ ہمارا مذ ہبی معاملہ ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چیز ہماری اور رکھوالی کوئی اور کرے ۔ آج اس اجلاس سے اٹھنے والی آواز ایوان اقتدار سے ٹکرائے گی اور کہے گی کہ مسلمان وقف قانون کو کلی طور پر مستر د کرتے ہیں۔ آئین سیکولرازم، جمہوریت اور اوقاف کے تحفظ کے لیے مکمل کامیابی تک ہماری جمہوری و قانونی جدو جہد جاری رہے گی ۔سپریم کورٹ کے ذریعہ وقف قانون کی بعض دفعات پر روک خوش آئند قدم ہے۔ یہ روک کارروائی پر نہیں بلکہ آئین کے خلاف کام کرنے والوں کی منشا اور ارادے پر روک ہے ۔ تا ہم مکمل کامیابی تک ہماری جدو جہد جاری رہے گی ۔ جمعیۃ علماء ہند اپنے آئینی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے وقف قانون 2025 کے خلاف عدالت گئی اس معاملہ کولیکر سپریم کورٹ نے جس توجہ اور سنجیدگی کا اظہار کیا اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عدالت یہ محسوس کرتی ہے کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، اور وقف ترمیمی قانون ایک غیر آئینی اقدام ہے۔ امید ہے کہ حتمی فیصلہ ان شاء اللہ آئین کی بالا دستی کو برقرار رکھے گا ۔ افسوس ملک کو اب ایسی حالت میں پہنچا دیا گیا ہے کہ انصاف کے تلاش کو بھی اب مذہبی چشمہ لگا کر دیکھا جانے لگا ہے۔ جبکہ ملک کا آئین و قانون ہر شہری کے لیے یکساں ہیں اور سب کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے۔