وقف کی حفاظت پوری امت کی ذمہ داری

وقف امور سے متعلق جماعت اسلامی ہند  کے زیر اہتمام مرکز نئی دہلی میں دو روزہ  تنظیمی و تفہیمی اجلاس کا انعقاد 

نئی دہلی،08نومبر:

اوقاف کے امور و معاملات سے واقفیت اور اس سے متعلق جملہ کاموں کو بہتر انداز میں انجام دینے کے طریقہ کار پر غور و فکر اور تبادلہ خیال کے لیے جماعت اسلامی ہند کے تحت ذمہ دارانِ حلقہ و شعبہ اوقاف کا ایک دو روزہ تنطیمی و تفہیمی اجلاس مرکز، نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ اس اہم اجلاس میں13 حلقوں سے اوقاف کے تئیں سرگرم تقریباً 25 ذمہ داروں نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں وقف سے متعلق اہم موضوعات پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔نیز  جائزہ رپورٹیں پیش کی گئیں اور مذاکرہ ہوا۔ اس موقع پر سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند نے کلیدی خطاب پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ “وقف اسلام کا ایک اہم ادارہ ہے۔ عام طور پر صرف اس کے افادی پہلو پر نظر ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وقف اسلام کے پورے معاشی تصور اور اسلامی نظام معاشیات کا ایک بہت ہی اہم ستون بھی ہے۔ دولت مند افراد سماج کی کسی خاص ضرورت کی تکمیل کے لیے مال و جائداد وقف کیا کرتے تھے۔ دنیا میں سب سے زیادہ وقف کی جائدادیں ہندوستان میں ہے۔ پورے اوقاف کے  70 فیصد تا 80 فیصد حصہ وقف بورڈ کے کنڑول کے باہر ہے اور بقیہ  20 فیصد تا 30 فیصد حصہ جو وقف بورڈ کے ماتحت ہے وہ بھی بد انتظامی اورکرپشن  کا شکار ہے۔ اس لیے وقف کی حفاظت، اس کا ریوائول اور اس کو بچائے رکھنا یہ پوری ملت کی ایک اہم ذمہ داری اور فرض کفایہ ہے۔ اس کو ادا کرنے کے لیے ہم کو بہت ہی سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کرنے کا ضروری کام ہے اس کے تئیں بیداری لانا، دوسرا اہم کام حکومت کے اقدامات، عدالتوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر اور میڈیا میں جو ڈسکورس چل رہا ہے اس پر نظر رکھنا اور تیسرا اہم کام ریاستی وقف بورڈ کو فعال کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے وقف کی شرعی حیثیت کے عنوان پربات کرتے ہوئے کہا کہ ” وقف خدمت خلق کی ایک مخصوص صورت ہے، جس پر قرآن و حدیث میں ترغیب آئی ہے۔ وقف کا سلسلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوگیا تھا۔ ہر زمانے اور ہر علاقے میں مسلم حکم رانوں اور اصحاب ثروت نے بڑی بڑی جائدادیں وقف کی ہیں۔ وقف جس کام کے لیے کیا جائے اسی کام میں اسے جاری رکھنا ضروری ہے”۔ڈاکٹر محی الدین  غازی نے دوسرے دن کی تذکیر میں فرمایا کہ اپنی قیمتی جائیداد کو نیکی کے کاموں کے لیے وقف کرنا معمولی بات نہیں ہے، نیکی کا سچا اور گہرا جذبہ اس کا محرک ہوتا ہے. ضروری ہے کہ جس جذبے سے جائیداد کو وقف کیا گیا ہے اسی جذبے سے وقف کی جائدادوں کی حفاظت و نگہداشت بھی کی جائے. اسی صورت میں وقف کی برکتوں سے سماج بہرہ مند ہوسکے گا. وقف کی نگرانی بہت بڑی ذمے داری ہے اور اس میں لاپرواہی یا کوتاہی بہت بڑی خیانت ہے۔

اجلاس میں سید محمود اختر (سابق ڈائیریکڑ، وزارت اقلیتی امور، حکومت ہند)، ڈاکٹر ظفر محمود (صدر، زکوٰۃ فاؤنڈیشن آف انڈیا)، اکرم الجبار ( سابق انکم ٹیکس کمشنر، مہاراشٹر)، محمد افضال الحق (اسسٹنٹ لا آفیسر، سنٹرل وقف کونسل)، جاوید احمد (وقف ویلفیئر فورم)، حسیب احمد (سابق جوائنٹ سکریڑی، منسٹری آف ایجوکیشن)، اڈوکیٹ اسلم احمد ، اڈوکیٹ رئیس احمد اور انتظار نعیم (سابق اسسٹنٹ سکریڑی، جماعت اسلامی ہند) نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ قابل مقررین نے ملک میں وقف کی موجودہ صورت حال، تحفظ اوقاف اور اس کے عملی تدابیر، وقف قوانین، وقف سروے اور وقف سے متعلق معلومات کی فراہمی  وغیرہ کے موضوعات پر بہت اہم گفتگو  کی جس سے شرکائ خوب مستفید ہوئے اور انہیں ہندوستان میں اوقاف کے مسائل اور ان کے حل کے متعلق  بہت اہم رہنمائی ملی۔ اس پروگرام کو کام یاب  بنانے میں سکریٹری شعبہ اوقاف جناب عبد الرفیق اور اسسٹنٹ سکریٹری جناب انعام الرحمٰن خاں نے اہم رول ادا کیا۔