وقف کو زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ ہے

  پٹنہ میں منعقد تاریخی تحفظ آئین ہند وقومی یکجہتی کانفرنس سے مولانا ارشدمدنی کا خطاب،بہار اور آندھرا پردیش کے وزرائے اعلیٰ کو بھی انتباہ

نئی دہلی،پٹنہ،24نومبر:۔

بہارکی راجدھانی پٹنہ کے باپو سبھا گار آڈیٹوریم میں آج منعقدتاریخی تحفظ آئین ہند اورقومی یکجہتی کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے ہوئے مسلمانوں کے ایک جم غفیر سے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آندھرااوربہارکے وزرائے اعلیٰ کو کھلے لفظوں میں یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ اگر انہوں نے اقتدارمیں بنے رہنے کے لئے وقف ترمیمی بل پر مرکزی حکومت کی حمایت کی تو مسلمانوںکی پیٹھ میں خنجرگھوپنے جیساہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب یہ دوہری سیاست نہیں چل سکتی کہ آپ ہماراووٹ لیں اورپھر اس ووٹ کی بنیادپر حاصل ہونے والے اقتدارکا استعمال آپ ہمارے خلاف کریں ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ وقف کو زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ ہے کیونکہ یہ اسلام کا ایک حصہ ہے اوراسلام وہ ہے جو کچھ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا ہے یاپھر جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے احادیث میں ارشاد فرمایا ہے۔ انہوں نے احادیث کے حوالوں سے یہ ثابت کیا کہ وقف کوئی نیاعمل نہیں ہے بلکہ یہ ابتدائے اسلام سے جاری وساری ہے ، عام ضرورت مند لوگوں کی مدداوردیگر نیک مقاصدکے تحت پچھلے چودہ سوسال سے لوگ اپنی املاک اورجائیدادیں اللہ کے نام پر وقف کرتے آئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہمارا پرسنل لاء قرآن و سنت پر مبنی ہے جس میں قیامت تک کوئی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ایسا کہہ کر کے ہم کوئی غیرآئینی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ سیکولر آئین نے ہمیں اس کی مکمل آزادی دی ہے۔

اسی تناظرمیں مولانا مدنی نے وقف کے تعلق سے وزیراعظم کے حالیہ بیان پر سخت حیرت کا اظہارکیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ آئین میں وقف کا کہیں ذکر نہیں ہے اس بیان پر اپنے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ابھی انہوں نے وقف کولیکر یہ بات کہی ہے کل کو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نماز ، روزہ حج اورزکوٰۃ کا بھی آئین میں کہیں ذکر نہیں ہے اس لئے انہیں بندکیاجاناچاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے ہم اس طرح کے کمزوربیان کی توقع نہیں کرتے تھے ، انہیں اگر اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہے تو ان لوگوں سے وہ اس بابت جانکاری حاصل کرسکتے تھے جو آئین کے جاننے والے ہیں ۔

مولانا مدنی نے کہا کہ آئین کی دفعہ 25 ۔26میں ملک کی تمام اقلیتوں کو مذہبی آزادی دی گئی ہے اوراسی مذہبی آزادی کا ایک اہم جزوقف ہے ، چنانچہ یہ ہمارامذہبی معاملہ ہے اس لئے اس کا تحفظ کرنا اوراسے زندہ رکھنا ہمارامذہبی فریضہ ہے ۔ اگروقف املاک کو تباہ کرنے والا اور وقف املاک کے قبضوں کی راہ ہموار کرنے والا یہ بل اگر پارلیا منٹ میں پیش کیا گیا تو جمعیۃ علماء ہندمسلمان، دوسری اقلیتوں اور تمام انصاف پسند لوگوں کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلائے گی اس لئے کہ مسلمان ہر خسارے کو برداشت کر سکتا ہے لیکن شریعت میں کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کر سکتا ۔

انہوں نے کہا کہ فرقہ پرستوں کی ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مختلف مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی علامتوں اور تشخص کے ساتھ دستور کے تحت ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔انہوں نے ملک میں پھیلائی گئی نفرت کی سیاست پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جب ملک کے وزیراعظم اوروزیرداخلہ ہی مسلمانوں کے خلاف غیر ذمہ دارانہ بیان دیں توپھردوسرے لوگوں کو زہریلابیان دینے سے کون روک سکتاہے

مولانا مدنی نے آخرمیں کہا کہ ہمارے مسائل بہت ہیں لیکن وقف ترمیمی بل ایک اہم مسئلہ ہے ، ہم اس بل کو پوری طرح مستردکرتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی ایک بھی ترمیم ایسی نہیں ہے جس پر گفتگوکی جائے۔ انہوں نے ایک بارپھر بہاراور آندھراکی حکومت کو باخبر کرتے ہوئے یہ کہا کہ وقف ہمارامذہبی معاملہ ہے اوروہ اگر خودکو سیکولر کہتی ہیں توانہیں اس پر اپنا موقف صاف اورواضح کردینا چاہئے اوراگر وہ اقتدارمیں بنے رہنے کے لئے اس کی حمایت کرتی ہیں تواس کا صاف مطلب ہوگاکہ انہوں نے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپ دیا ہے ۔اخیر میں انہوں نے کہا کہ ملک میں سیکولرزم اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والی سماجی اور سیاسی تنظیمیں اور دیگر ادارے فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف متحد ہو کر ان کے ناپاک عزائم کو ناکام کر دیں کیونکہ اگر ملک میں دستور اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اورعدل و انصاف سے کام نہیں لیا جائے گا تو اس ملک کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا ،جو اکثریت اور اقلیت دونوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔