وقف قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اب تک 20پٹیشن داخل
16 اپریل کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ اس کیس کی سماعت کرے گی

نئی دہلی،11 اپریل :۔
وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف ایک طرف جہاں ملک بھر میں مسلم تنظیموں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور آج جمعہ کے بعد بھی بڑی تعداد میں متعدد شہروں میں لوگ سڑکوں پر نکلے اور اس قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔دریں اثنا سپریم کورٹ میں بھی اس سلسلے میں متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں ۔جمعیۃ علمائے ہند کی جانب سے بھی مفاد عامہ کی عرضی دائر کی گئی ہے ۔ اس طرح کے درجنوں درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں جس پر سپریم کورٹ آئندہ جلد ہی سماعت کرے گی ۔ رپورٹ کے مطابق اب تک سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف کل 20 عرضیاں داخل کی جا چکی ہیں ۔ وقف ترمیمی ایکٹ سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے تاریخ اور بینچ کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 16 اپریل کو چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ اس کیس کی سماعت کرے گی۔ بنچ کے دیگر 2 ارکان ہیں – جسٹس سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن۔ کیس سماعت کی فہرست میں 13 ویں نمبر پر ہے۔ فہرست میں کل 10 عرضیاں ہیں، ان میں پہلی عرضی اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی کی ہے۔ وقف ترمیمی ایکٹ کے خلاف اب تک تقریباً 20 درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
عرضی داخل کرنے والوں میں کانگریس، آر جے ڈی، ایس پی، ڈی ایم کے، اے آئی ایم آئی ایم اور اے اے پی جیسی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ دونوں جمعیۃ علماء ہند اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ شامل ہیں۔ تمام درخواستوں میں بنیادی بات یہ کہی گئی ہے کہ یہ ایک ایسا قانون ہے جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ وقف ایک مذہبی ادارہ ہے۔ اس کے کام میں حکومت کی مداخلت غلط ہے۔
درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ نیا وقف قانون آئین کے آرٹیکل 14، 15 (مساوات)، 25 (مذہبی آزادی)، 26 (مذہبی معاملات کا ضابطہ) اور 29 (اقلیتی حقوق) جیسے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ درخواست گزاروں نے یہ بھی کہا ہے کہ قانون میں تبدیلی آرٹیکل 300 اے یعنی جائیداد کے حق کے خلاف ہے۔
خیال رہے کہ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کیویٹ بھی داخل کیا ہے۔ مرکز نے مطالبہ کیا ہے کہ کوئی بھی حکم صادر کرنے سے پہلے اس کا رخ سنا جائے۔ کیونکہ وقف ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کرنے والی درخواستوں میں اس قانون پر روک لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ایسے میں حکومت نے یہ یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ عدالت اس کا فریق سنے بغیر کوئی یکطرفہ حکم نہ دے۔ اس کے علاوہ قانون کی حمایت میں کچھ عرضیاں بھی دائر کی گئی ہیں۔ ان درخواستوں میں نئے قانون کو درست اور آئین کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔