وقف قانون کے تعلق سے وزیر اعظم مودی کے الزامات بے بنیاد، افواہیں ہیں

کانگریس رہنما اور راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی چیئر مین کے رحمان خان نے وزیر اعظم کے الزامات کی تردید کی

بنگلورو،14 ،دسمبر :۔

وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف مسلمانوں کا احتجاج جاری ہے۔ جے پی سی کی میٹنگ میں بھی مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے پر زور طریقے سے اس بل کی مخالفت کی ہےاور اس کے مضمرات سے آگاہ کیا ہے۔مگر حکومت اس بل کی منظوری کے لئے ہر تگ و دو کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بل کی حمایت کی اور اس بل کے سلسلے میں عوامی اسٹیج سے کانگریس کو نشانہ بناتے ہوئے متعدد الزامات عائد کئے تھے۔جس پر کانگریس  رہنما اور  راجیہ سبھا کے سابق ڈپٹی چیئرمین کے رحمن خان نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے ۔وزیر اعظم نے الزامات عائد کئے کہ  کانگریس نے خوشامد کی پالیسیوں کے ذریعے ووٹ بینک کی سیاست کرنے کے سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز  کرتے ہوئے وقف بل پاس کیا۔

مودی نے کانگریس پر حملہ کرنے کے لیے دہلی وقف بورڈ کی مثال دی تھی۔ پی ایم نے دعویٰ کیا کہ 2014 میں عہدہ چھوڑنے سے ٹھیک پہلے کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت نے دہلی میں جائیدادیں وقف بورڈ کو سونپ دی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین، جیسا کہ بی آر امبیڈکر نے تیار کیا تھا، وقف بورڈ کا ذکر تک نہیں  ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تشکیل سیاسی طور پر کی گئی ۔

تاریخی اور قانونی پہلوؤں کا حوالہ دیتے ہوئے خان نے مودی کے دعووں کو بے بنیاد افواہیں قرار دیا۔ سابق مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نے کہا کہ 123 وقف املاک کی ملکیت جن میں مساجد، قبرستان، مقبرے اور مدارس شامل ہیں، کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ تین دہائیوں پر محیط ہے۔ یہ جائیدادیں آستھااور عبادت کی اہم جگہیں ہیں اور ان جائیدادوں کی شناخت کا عمل اندرا گاندھی کے بطور وزیر اعظم دور میں شروع ہوا (1970)؛ اور یہ کانگریس حکومت کا آخری لمحہ کا فیصلہ نہیں تھا جیسا کہ مودی نے الزام لگایا تھا۔

کانگریس لیڈر نے کہا کہ گاندھی کی انتظامیہ کے دوران، ایک سرکاری کمیٹی نے دہلی میں 400-500 جائیدادوں کو وقف املاک کے طور پر شناخت کیا، جن میں سے 123 کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ۔ یہ جائیدادیں بعد میں 99 سال کے لیے لیز پر دی گئیں۔سابق ایم پی نے کہا کہ یہ سیاسی طور پر محرک نہیں تھا بلکہ تاریخی اور قانونی شواہد کی بنیاد پر ان جائیدادوں کو ان کی جائز حیثیت پر بحال کرنا تھا۔

جائیدادیں مذہبی تھیں اور کسی سرکاری کام کے لیے استعمال نہیں کی گئی تھیں۔ کئی سالوں کی قانونی کارروائی کے بعد بالآخر دہلی ہائی کورٹ نے ان جائیدادوں کو وقف بورڈ کو واپس کرنے کے حق میں فیصلہ دیا۔

ڈاکٹر خان نے کہا کہ حکومت کا ان جائیدادوں کو وقف کے طور پر مطلع کرنے کا فیصلہ قانونی تھا اور اس کا مقصد ان کے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنا تھا۔واضح رہے کہ کے رحمان  خان ایک تجربہ کار سیاست داں ہیں اور ہندوستان میں وقف املاک سے متعلق قانون سازی کی تشکیل میں ان کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے 1995 کے وقف ایکٹ میں 2013 کی ترامیم کی قیادت کی۔