وقف قانون کی آڑ میں مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا ہے منصوبہ

اے پی سی آر اور آئی ایم سی آر کے زیر اہتمام وقف تحفظ پر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقدہ عوامی جلسے میں مقررین کا اظہار خیال

مشتاق عامر

نئی دہلی ،25 مئی :۔

وقف کی لڑائی صرف مسلمانوں کی لڑائی نہیں ہے ۔ آج مسلمانوں کے اوقاف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اگر اس قانون کو نہیں روکا گیا تو کل عیسائی اور سکھوں کی مذہبی جائدادوں پر بھی اسی طرح کے قانون لائے جائیں گے ۔پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے ایک زبان ہوکر وقف قانون کی مخالفت کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حزب مخالف وقف کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے ۔یہ ملک قانون اور دستور کے مطابق چلے گا ۔اس کے لیے تمام انصاف پسند لوگوں کو مل کر جدو جہد کرنی ہوگی ۔ ان خیالات کا اظہار Association for protection of Civil Rights (APCR) اور Indian Muslim for Civil Rights(IMCR) کے مشترکہ تعاون سے دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقدہ ’ اوقاف کے تحفظ ‘ پر ایک عوامی جلسے کے دوران کیا گیا ۔جلسے میں سابق ججز ، قانونی ماہرین ، پارلیمنٹ کے ارکان ، سول سو سائٹی کے کارکنان ، دانشور  اور صحافیوں کے علاوہ بڑی تعداد میں عام لوگوں نے شرکت کی ۔ جلسے میں اوقاف کے تحفظ کے مسئلے پر مختلف لوگوں اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا  ۔معروف مسلم سیاست داں اور سابق رکن پارلیمنٹ محمد  ادیب نے اپنے خطاب میں مودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ محمد ادیب نے کہا کہ وقف قانون ایک طرح سے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے بنایا گیا ہے ۔اس طرح کا قانون لانے کے پیچھے حکومت کی منشا یہ ہے کہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا دیا جائے ۔محمد ادیب نے کہا کہ عملی طور پر اب یہ ملک سیکولر نہیں رہ گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے جو باتیں حکومت کی طرف سے کہیں جا رہی ہیں ان کا سلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔کیوں کہ وقف کا نظام قرآن مجید سے ثابت ہے ۔رسول ﷺ کے زمانے سے وقف ہوتے رہے ہیں ۔اس کا تاریخی ثبوت کتابوں میں موجود ہے ۔

محمد ادیب نے کہا کی اللہ کے لیے وقف کی گئی زمین کا اسٹیٹس کو کوئی نہیں بدل سکتا ۔وقف کے معاملے میں اگر عدالت سے انصاف نہیں ملا تو آئین کی دفعہ 26 بے معنی ہوکر رہ جائے گی ۔اوقاف کے عوامی فوائد کے تناظر میں انہوں نے کہا کہ مسلمان بھیک مانگنے والی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو عطیہ دینے والی قوم ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ  وقف کے معاملےمیں عدالت انصاف کرے گی ۔اپنے خطاب میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے اوقاف کی تعریف اور اس کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ وقف ایک اسلامی اصطلاح ہے ۔اس کے معنی لوگوں کو عطیہ دینے کے ہیں زمین پر قبضہ کرنے کے نہیں ۔وقف کا مطلب جائداد کو اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے حوالے کرنے کا نام ہے ۔اگر کسی نے جائداد کو  وقف کر دیا ہے تو وہ اس مالک نہیں رہ جائے گا ۔ اسلامی اوقاف کا مقصد غریبوں ، بے سہارا افراد کو فائدہ پہنچانا ، مساجد ، اسپتال ،رفاہی اداروں کا قیام ہے ۔تعلیم اور اسکالر شپ کا اجرا ہے ۔انہوں کہا کہ اوقاف شریعت کا ایک اہم جزو ہے ۔ہندوستان میں صرف بادشاہوں یا نوابوں نے ہی جائدادیں وقف نہیں ہیں بلکہ چھوٹے بڑے  تاجر ، اہل ثروت اور عام لوگوں نے بھی رفاہ عامہ کے لیے جائدادیں وقف کی ہیں ۔ہمارے پاس جو وقف ہے اس کا بیشتر حصہ عام لوگوں کے ذریعے وقف کیا ہوا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر وقف قانون کو پہلے سے بہتر بنا کر پیش کیا جا تا ہم اس کا خیر مقدم کرتے لیکن حکومت نے اس قانون کو  بالکل الٹا کر دیا ہے ۔ملک معتصم خان نے کہا کہ ملک میں اور بھی سنگین مسئلے ہیں جن کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ بدعنوانی ، جنسی بے راہ روی ، معاشی بدحالی ،  اخلاقی گراوٹ اور غربت پر بحث نہیں ہو رہی ہے بلکہ وقف قانون لاکر بنیادی مسئلوں کی طرف سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کی اپوزیشن نے متحد ہو کر وقف قانون کی مخالفت کی ہے ۔میں اس کے لیے تمام اپو زیشن پارٹیوں کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔

پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق

رکن پارلیمنٹ اور جے پی سی کے ممبر رہے سنجئے سنگھ نے وقف قانون کی سخت الفاظ میں مذمت کی ۔ انہوں نے کہا کہ وقف قانون اس لیے لایا گیا ہے کہ وزیر اعظم مودی  وقف کی زمینوں کو اپنے دوستوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ۔کسی بھی مذہب کو ماننے والا ہوا اس کو آپ دان دینے سے روک نہیں سکتے۔اس قانون کا مقصد ملک میں فرقہ ورانہ فساد کرانا ہے۔سنجئے سنگھ نے کہا کہ ملک کے آئین میں کچھ بنیادی حقوق طے کئے گئے ہیں جن کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ۔اسی میں مذہبی آزادی اور وقف کا نظام بھی شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ وقف قانون ایک غیر آئینی قانون ہے ، اسے کسی بھی طور قبول نہیں کیا جا سکتا ۔سنجئے سنگھ نے بھروسا دلایا کہ وقف کی لڑائی ملک کی مشترکہ لڑائی ہے اور اسے شانہ بہ شانہ مل کر لڑا جائے گا ۔عیسائی دانشور جون دیال نے بھی اپنے خطاب میں وقف قانون پر کئی طرح کے سوال اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ بظاہر وقف کے معاملے سے عیسائی مذہب کا کوئی سیدھا تعلق نہیں ہے لیکن جس طرح سے وقف قانون لایا گیا ہے اس کا عیسائی فرقے سے بہت گہرا تعلق پیدا ہو گیا ہے۔یہ ایک خطر ناک صورت حال ہے ۔کیوں کہ پورے ملک میں چرچ کی ملکیت میں بڑی بڑی زمیں موجود ہیں۔ آنے والے دنوں میں حکومت  اس پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

خطاب کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ

جون دیال نے کہا کہ آج جو قانون مسلمانوں کے خلاف لایا گیا ہے کل کو اسی طرح کا قانون عیسائیوں کے خلاف بھی لایا جا سکتا ہے ۔اسلام کے تصور اوقاف کی تعریف کرتے ہوئے جون دیال کہا کہ وقف اسلام ایک ایسا خوبصورت حصہ ہے جو عوامی خدمات کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ہے ۔آر ایس ایس کے تخریبی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ کیرلا میں آر ایس ایس مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جھگڑا کرانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ہمیں اس کوشش کا نا کام بنانے کے لیے کام کرنا چاہئے ۔رکن پارلیمنٹ ضیا الرحمان برق نے کہا کہ سرکار جو وقف قانون لے کر آئی ہے اس میں اس کی نیت صاف نہیں ہے ۔وقف ہمارا قانونی حق ہے اور اس حق کی پامالی کے خلاف ہم آواز اٹھاتے رہیں گے ۔انہوں نے کہا جو سیکولر پارٹیاں حکومت میں شامل ہیں انہوں نے مسلمانوں کے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا کام کیا ہے۔ان پارٹیوں کو آئندہ چناؤ میں سبق سکھانے کی ضرروت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف ملنے کی امید ہے ۔رکن پارلیمنٹ اقرا حسن نے بھی وقف قانون کی مخالفت کی ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی بھی طرح مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔سب سے پہلے لوگوں کے درمیان جاکر وقف کے تعلق سے پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔اقرا حسن نے کہا کہ حکومت مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہم اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔جلسے میں پروفیسر وی کے ترپاٹھی نے وقف قانون کو لیکر کئی گمبھیر باتیں کہی ۔انہوں نے کہا کہ وقف قانون کی آڑ میں ابھی سے مسلمانوں کے مدرسوں ، مسجدوں اور مذہبی مقامات پر قبضے کرنے کی شروعات ہو چکی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وقف قانون کے پیچھے حکومت کی منشا یہ ہے کہ پہلے وقف جائداد کو متنازعہ قرار دیا جائے اس کے بعد کلکٹر کے ذریعے زمین پر قبضہ کیا جائے   ۔جلسے میں وقف قانون کے مختلف پہلوؤں پر مقررین روشنی ڈالی اور  اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا  ۔جلسے کو جن دوسرے لوگوں نے خطاب کیا ان میں جے این یو اسٹودنٹس یونین کے صدر نتیش ، اسٹو ڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کے جنرل سکریٹری طلحہ منان ، سابق رکن پارلیمنٹ کنور دانش علی ،سی پی آ ئی ( ایم ایل) کے روی رائے ، میجر جنرل (ر) جاوید ، پروفیسر منوج جھا ، پروفیسر رتن لال ، انعام الرحمان ، روح اللہ اور سعیدہ بیگم شامل ہیں ۔ جلسے کی نظامت اے پی سی آر کے نیشنل سکریٹری ندیم خان نے کی ۔