وقف جائیدادوں کا تحفظ ملت اسلامیہ کی ذمہ داری
جماعت اسلامی ہند کے تحت مرکز نئی دہلی میں 123وقف جائیدادوں کا قضیہ کے موضوع پر منعقد پروگرام میں شرکا کا اظہار خیال
نئی دہلی، 11 دسمبر :۔
دہلی میں 123 وقف جائیدادوں کے تعلق سے ایک لمبے عرصے سے تنازعہ جاری ہے ۔حکومت کی بد نیتی اور دہلی وقف بورڈ کی عدم توجہی کی وجہ سے متعدد وقف جائیدادیں یا تو غیر قانونی قبضوں میں پڑی ہیں یا بے کار ہو رہی ہیں ۔ اس سلسلے میں ملت اسلامیہ بھی تساہلی کا شکار ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتان پڑ رہا ہے ۔دریں اثنا جماعت اسلامی ہند کے تحت مرکز، نئی دہلی میں ’دہلی کی 123 وقف جائیدادوں کا قضیہ‘ کے عنوان سے ایک پروگرام منعقد ہوا۔جس میں شرکا نے وقف جائیدادوں کے تعلق سے حکومت اور مسلم معاشرے میں عدم بیداری پر گفتگو کی ۔
پروگرام میں ’انجمن حیدری‘ کے جنرل سکریٹری بہادر عباس نقوی نے بھی شرکت کی ۔ انہوں نے وقف جائیدادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ” دہلی میں وقف جائیدادوں کی دیکھ ریکھ کا ذمہ دار وقف بورڈ ہے۔ فی الوقت بیشتر جائیدادیں ملت اسلامیہ کی تحویل میں نہیں ہیں ۔ کانگریس کے دور میں ان تمام جائیدادوں کو ڈی نوٹیفائی کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جب کوئی جگہ نوٹیفائی ہوئی ہی نہیں تو اس کا ڈی نوٹیفائی کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس غلطی کی طرف نشاندہی کی گئی تو سرکار نے ایک ’ون مین کمیٹی‘ تشکیل دی جو ان جائیدادوں کے حقائق کا پتہ لگائے ۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ تمام 123 جائیدادیں ’وقف نیچر‘ کی ہیں۔ یہ رپورٹ سرکار کو پسند نہیں آئی، لہٰذا پھر سے ایک ’ ’ٹو مین کمیٹی ‘ تشکیل دی گئی۔ ان دونوں کمیٹیوں کے سامنے انجمن حیدری و دیگر متولیان پیش ہوئے اورمتعلقہ دستاویزات پیش کئے، پھر بھی پروسیڈنگ فائنل اسٹیج تک پہنچ گئی اور یہ آرڈر آگیا کہ ان جائیدادوں کی آنر شپ کا کوئی دعویدار نہیں ہے۔ حالانکہ یہ آرڈر غلط تھا۔ کیونکہ وقف بورڈ کسی وقف جائیداد کا مالک نہیں ہوتا ہے، نہ ہی کوئی ایک ادارہ یا فرد ان کا مالک ہوسکتا ہے۔ یہ جائدادیں ملت کی ملکیت ہوتی ہیں۔ البتہ متولیان یا وقف بورڈ اس کی دیکھ ریکھ کرتا ہے۔
وقف بورڈ کو صرف اتنا اختیار ہے کہ وہ ان جائیدادوں کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ اس کا استعمال صحیح ہورہا ہے یا نہیں؟ اگر کوئی متولی وقف منشا کے خلاف کسی جائیداد کا استعمال کررہا ہے تو وقف بورڈ اس کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔ جبکہ جو آرڈر پاس کیا گیا، اس میں اسے مالک کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے، جو صحیح نہیں ہے“۔ اسی طرح ابھی جو 123 اراضی کے سروے کا آرڈر آیا ہے۔ یہ سروے صرف آنر شپ کے اوپر ہورہا ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام متولیان صورت حال سے آگاہ ہوں اور زیادہ سے زیادہ کاغذی ثبوت کورٹ کو فراہم کریں تاکہ تمام وقف جائیدادوں کی ملکیت مسلمانوں کی تحویل میں آجائے“۔
جماعت میں اسسٹنٹ سکریٹری انعام الرحمن نے کہا کہ”وقف جائیدادوں کے بارے میں ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس کے تعلق سے امت میں وہ جذبہ نہیں پایا جارہا ہے جو ہونا چاہئے۔ ان املاک کے تعلق سے ملت اسلامیہ اور ملی تنظیموں میں بیداری آجائے تو ان کی بازیابی آسان ہوسکتی ہے ۔ اسی کا فائدہ حکومت اٹھانا چاہتی ہے اور مبینہ طور پر وقف ایکٹ کو ختم کرنے کے بارے میں سوچا جارہا ہے۔جبکہ اوقاف کی جتنی جائیدادیں ہیں، اگر ان کی بازیابی کرلی جائے تو امت کی غربت کے خاتمے میں بڑی پیش رفت ہوسکتی ہے۔چونکہ وقف جائیدادوں کا تعلق پوری ملت اسلامیہ سے ہے، اس لئے جماعت اسلامی ہند ابتدا سے ہی اس سلسلے میں ملت کے اندر بیداری لانے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔اوقاف کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر طے کیا گیا ہے کہ ملت کے تمام گروپس ، اسٹیک ہولڈرس اور وقف کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر مشترکہ جدو جہد کی جائے۔
یہ پروگرام جماعت کے نیشنل سکریٹری محمد احمد صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں جماعت کے دیگر ذمہ دران کے علاوہ سامعین کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔