وقف ترمیمی قانون اقلیتی حقوق کیلئے سیاہ باب،مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ
ماہانہ پریس کانفرنس میں امیر، جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نےوقف ایکٹ کی منسوخی کیلئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ملک گیر احتجاج اور قانوی جنگ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا،غزہ کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار

نئی دہلی،07 اپریل:۔
وقف ترمیمی بل اب صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد قانون بن چکا ہے مگر اس بل کے مضمرات کو دیکھتے ہوئے ملی اور سیاسی تنظیموں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ درجنوں درخواستیں داخل کی گئی ہیں اور اس پر فوری سماعت کا آج مطالبہ بھی کیا گیا ۔ دریں اثنا اس ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں مسلمانوں میں تشویش کی لہر ہے اور اس کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ملک کی معروف ملی تنظیم جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے بھی اس ایکٹ مخالف احتجاج کو تحریک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ امیرجماعت سید سعادت اللہ حسینی نے پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل 2025 کی منظوری کو ‘اقلیتی حقوق کے لیے تاریک باب’ قرار دیتے ہوئے مذمت کی ہے اور انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ملک گیر احتجاج کی مکمل حمایت کا وعدہ کیا ہے اور تمام قانونی طریقوں کو بروئے کار لانے کا عہد کیا ہے۔انہوں نے اس بل کو مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ قرار دیا۔
امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی آج جماعت اسلامی ہند کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ماہانہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ انہوں نے اس موقع پر اس ایکٹ کی مذمت کی اور خاص طور پر ان سیاسی رہنماؤں پر تنقید کی جنہوں نے ایوان میں بل کی حمایت کی، خاص طور پر نتیش کمار اور این چندرابابو نائیڈو، جنہیں اکثر سیکولرازم کا چمپئن سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ان کے اقدامات کو ‘سیاسی موقع پرستی اور دھوکہ دہی کی بدترین مثال’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس قلیل مدتی سیاسی چالبازی کی بھاری قیمت ادا کریں گے اور شاید اگلے انتخابات میں دوبارہ اقتدار حاصل نہ کر سکیں۔
پریس کانفرنس کے دوران انہوں نےکہا کہ ’’ یہ بل جس نے اب قانونی حیثیت حاصل کر لی ہے، مذہبی امتیاز اور جانبداریت پر مبنی ہے، اسے اقلیتی حقوق کے لیے ایک سیاہ باب کے طور پر جانا جائے گا۔ یہ قانون ملک میں مذہبی آزادی اور آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔ مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ 1995 میں ترمیم کرکے اس قانون کو تیار کیا ہے جس سے وقف املاک کے انتظام میں حکومتی مداخلت کا راستہ ہموار ہوگیا ہے۔ یہ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 14، 25، 26 اور 29 کے خلاف ہے۔ اس بل پر بحث کے دوران پارلیمنٹ میں برسراقتدار پارٹی کی طرف سے کئی گمراہ کن دلائل پیش کیے گئے، کہا گیا کہ وقف بورڈ چیریٹی کمشنر کی طرح ہے جبکہ یہ دعویٰ قطعی غلط ہے۔ اس کی نوعیت کسی چیریٹی کمشنر کی طرح نہیں ہے۔ متعدد ریاستوں میں ہندو اور سکھ اوقاف کے لیے خصوصی قوانین موجود ہیں جس میں ان اوقاف کی دیکھ ریکھ کرنے اور انتظامات سنبھالنے کا مکمل اختیار متعلقہ مذہبی طبقات کے افراد کو حاصل ہے۔ حکومت نے وقف املاک میں بد انتظامی اور قانونی تنازعات کو اس ترمیم کی اصل وجہ بتایا ہے۔ مگر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس رہنمائی نہیں کی ۔ اس کے بجائے غیر مسلم اراکین کو شامل کرنے اور حکومت کے نامزد افسران کو اختیارات منتقل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سرکاری حکام اور افسروں کی مداخلت سے بدعنوانی اور بد انتظامی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس قانون کو مسلم اداروں کو کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
امیر جماعت نے کہا کہ ’’ یہ بل پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت سے پاس ہوا۔ اس کےحق میں 288 ووٹ پڑے جبکہ خلاف میں 232 ووٹ تھے۔ اور راجیہ سبھا میں حمایت میں صرف 128 ووٹ پڑے جبکہ مخالفت میں 95 ووٹ ڈالے گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ برسراقتدار پارٹی کے پاس لوک سبھا میں ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں ہیں جو اس بل کے حق میں بول سکتا۔ تاہم اپوزیشن اور دیگر اراکین نے اس کی کھل کر مخالفت کی ۔ ہم اس تفریق پر مبنی قانون کی مخالفت کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اس قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج میں اپنی مکمل حمایت جاری رکھیں گے اور اس غیر منصفانہ قانون کو ختم کرنے کےلئے تمام قانونی اور جمہوری طریقے اختیار کریں گے۔ جہاں تک سیکولرزم کا دعویٰ کرنے والی پارٹیاں جنہوں نے اس قانون کی حمایت کی ہے، کا سوال ہے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں اس سیاسی موقع پرستی اور دھوکہ دہی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے حلقوں میں دوبارہ اقتدار کے لیے منتخب نہ کیے جائیں۔
غزہ کی موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ ’’ ہم غزہ بالخصوص ’ رفح‘ میں اسرائیلی فضائی حملوں کی سخت مذمت کرتے ہیں، وہاں محفوظ علاقوں ’’ سیف زون‘ میں خیموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں سمیت عام شہری شہید ہورہے ہیں۔
اسرائیل نے رمضان کے مقدس مہینے میں سحری کے وقت بار بار شہریوں کو نشانہ بنایا ۔ اس نے غزہ کے ایک اسکول پر بھی بمباری کی جہاں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔ اسرائیل بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی غزہ میں قحط کے باعث خوراک ، پانی اور طبی سامان کی شدید قلت کی اطلاع دی جا رہی ہے۔اس کے باوجود غذائی اجناس کو عوام تک پہنچنے میں اسرائیلی حکومت رخنہ ڈال رہی ہے۔ غزہ میں انسانی تباہی کا یہ عالم ہے کہ اکتوبر 2023 سے اب تک 50 ہزار سے زیادہ لوگ شہید اور وہاں کی 7 فیصد آبادی ہلاک یا زخمی ہوچکی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم ہے جس کے لیے اسے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے۔ مگر مغربی ممالک ، امریکہ کی قیادت میں اسرائیل کو جوابدہی سے بچانے کی پوری کوشش کررہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب کا انسانی حقوق کی وکالت کرنا محض ایک ڈھونگ ہے۔ آج فلسطین کے لوگ استعماری طاقتوں کے سامنے اپنی بقا، وقار اور آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند غزہ میں شہری ہلاکتوں پر ہندوستانی وزارت خارجہ کے اظہار تشویش کا خیر مقدم کرتی ہے اور بعض سیاسی رہنماؤں کے فلسطین نواز بیانات کو سراہتی ہے۔ ہم حکومت ہند سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیلی حکومت کو تشدد سے روکنے کے لیے ٹھوس اقدام کرے اور جنگ بندی کے نفاذ کو یقینی بنانے میں مثبت اور مضبوط رول ادا کرے۔ پریس کانفرنس میں نائب امرائے جماعت پروفیسر سلیم انجینئر اور ملک معتصم خان نے بھی صحافیوں سے گفتگو کی۔