وقف ترمیمی بل کے خلاف کولکاتہ میں احتجاجی مظاہرہ،دہلی میں17 مارچ کو

تمام ملی تنظیموں کی جانب سے بڑی تعداد میں عوام سے مظاہرے میں شرکت کی اپیل

نئی دہلی ،12 مارچ

وقف (ترمیمی) بل 2024 کے خلاف  گزشتہ روز  پیرکو کولکاتہ میں ایک زبردست مشترکہ احتجاج کا اہتمام کیا گیا جس میں تمام تنظیموں اور گروہوں کے لوگوں نے شرکت کی۔مسلم تنظیموں کے علاوہ غیر مسلم افراد نے میں اس احتجاج میں شرکت کر کے یکجہتی کا اظہار کیا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کے رکن مولانا ابو طالب رحمانی، سی پی آئی ایم کے ریاستی سکریٹری محمد سلیم، جماعت اسلامی ہند مغربی بنگال کے صدر ڈاکٹر مسیح الرحمان، اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس آئی او) کے ریاستی صدر عمران حسین، مولانا معروف (سلفی)، جمعیت اہل حدیث ریاستی سکریٹری اور دیگر مسلم قائدین نے مظاہرے میں شرکت کی۔اس احتجاج کا مقصد وقف املاک کو متاثر کرنے والی متنازعہ ترامیم کی مخالفت کرنا تھا۔ احتجاج میں شامل لوگوں نے مرکزی حکومت سے فوری طور پر اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

دریں اثنا دہلی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام جنتر منتر پر 13 مارچ کو ہونے والا مظاہرہ اب 17 مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  نے مجوزہ وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف 17 مارچ کو جنتر منتر پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے قبل بورڈ نے 13 مارچ کو احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔مظاہرے کی تاریخ میں تبدیلی کا اعلان بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا مجددی اور ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے آج پریس کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس میں کیا۔

13 مارچ کو ہولی ہونے اور پولس کی جانب سے اجازت نہ دینے کی وجہ سے تاریخ کو تبدیل کرنا پڑا۔ پولیس نے اب 17 مارچ کی اجازت دے دی ہے۔اے آئی ایم پی ایل بی کے مطابق یہ بل ہندوستانی آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے اور اس کا مقصد وقف املاک کو تباہ کرنا ہے۔

واضح رہے  کہ جماعت اسلامی ہند کے  امیر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  کے  نائب صدر سید سعادت اللہ حسینی نے دہلی اور آس پاس کے علاقوں کے مسلمانوں سے  جنتر منتر پر ہونے والے احتجاج میں بڑی تعداد میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ یہ مظاہرہ AIMPLB کی قیادت میں مختلف غیر مسلم تنظیموں کے اشتراک سے منعقد کیا جا رہا ہے۔

اے آئی ایم پی ایل بی کے مطابق یہ بل ہندوستانی آئین کے خلاف ہے اور اس کا مقصد وقف املاک کو تباہ کرنا ہے۔ ق

ابل ذکر ہے کہ مسلم کمیونٹی کے زبردست احتجاج اور اپوزیشن جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے یہ بل تقریباً سات ماہ قبل ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجا گیا تھا۔ تاہم، کمیٹی نے اسے واپس لینے کی سفارش نہیں کی، لیکن ترمیم شدہ بل لوک سبھا کے اسپیکر کے سامنے پیش کیا۔ موجودہ پارلیمانی اجلاس میں اس کے پاس ہونے کا امکان ہے۔