وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج قانون کے دائرے میں کیا جا ئےگا
جمعیة علمائے ہند ارشد مدنی کی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں انتہائی اہم فیصلہ ، اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور یکساں سول کوڈ پر تشویش کا اظہار
![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/Arshad-madani-600x430.jpg)
دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی،13فروری:۔
جمعیة علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کا ایک اہم اجلاس جمعیة کے مرکزی دفتر میں جمعیة کے صدر مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں موجود تمام ممبران نے موجودہ صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ اجلاس میں ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور یکساں سول کوڈ اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے، جنگ بندی معاہدے کے بعد بھی فلسطین پر اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں اور امریکی صدر کی جانب سے فلسطین کو جہنم میں تبدیل کرنے کی دھمکی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اس موقع پر اپنی صدارتی تقریر میں جمعیة کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ تمام آئینی طریقوں اور مسلمانوں کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے اسپیکر کے سامنے پیش کیا گیا وقف بل مرکزی حکومت نے آج منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمعیةعلماء ہند اور تمام مسلم تنظیموں کی رائے اور مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے بل کی منظوری کی سفارش کرنا اور اپوزیشن ارکان کی تجاویز کو مسترد کرنا غیر جمہوری اور مسلمانوں کے آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اگر حکومت کو آمریت اور جبر سے چلانا ہے تو جمہوریت کا نعرہ کیوں لگایا جا رہا ہے اور آئین کو کیوں پکارا جا رہا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ افسوسناک حقیقت اب سامنے آئی ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی حکومت میں شامل پارٹیوں نے بھی بزدلی اور خود غرضی کا مظاہرہ کیا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اگر خدانخواستہ یہ قانون منظور ہوتا ہے تو جمعیة علماء ہند اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی اور اس کے ساتھ ہی جمعیة بھی وقف املاک کو بچانے کے لیے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں اور انصاف پسند لوگوں کے ساتھ تمام جمہوری اور آئینی حقوق کا استعمال کرے گی۔
مولانا مدنی نے مزید کہا کہ مسلمانوں نے جو بھی وقف کیا ہے اور جس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے، وہ وقف کرنے والے کی نیت کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ جائیداد اللہ کا عطیہ ہے۔ حکومت کے برے عزائم ہیں اور وہ ہمارے مذہبی مسائل میں مداخلت کرنا چاہتی ہے اور مسلمانوں کی اربوں کھربوں کی جائیداد ہڑپ کرنا چاہتی ہے جیسا کہ اس نے پہلے بھی مداخلت کی ہے خواہ وہ یو سی سی کا مسئلہ ہو یا طلاق یا نان نفقہ کا مسئلہ، مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود انہوں نے مداخلت کی ہے۔مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہم اس طرح کے کسی بھی قانون کو قبول نہیں کر سکتے۔ جو خلاف ہے یا جس سے وقف کی حیثیت بدل جاتی ہے۔مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ہم یکساں سول کوڈ کی بحث کو سیاسی سازش کا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں تمام ہندوستانیوں کا ہے۔ ہمارا شروع سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ ہم تیرہ سو سال سے اس ملک میں آزادی سے اپنے مذہب پر عمل پیرا ہیں۔ ہم ایسے ہی جییں گے اور ایسے ہی مریں گے، لیکن ہم اپنے مذہبی معاملات اور عبادات کے طریقوں پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اور ہم اپنے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن قدم اٹھائیں گے کیونکہ ملک کے آئین نے ہمیں اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔ میٹنگ کے آخر میں مولانا مدنی نے ان تمام اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کیا جو پارلیمنٹ میں اپنے حقوق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بل کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔ اور ہندوستان کے سیکولر آئین کو مضبوط کر رہی ہیں۔