وقف ترمیمی بل پر تنازعہ کے درمیان   راجستھان ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ

راجستھان ہائی کورٹ نے ایک وقف تنازعہ میں  وقف بائی یوزر کو تسلیم کرتے ہوئے وقف ٹریبونل کو فیصلہ کن اتھارٹی  قرار دیا

نئی دہلی،27 فروری :۔

وقف (ترمیمی) بل، 2024 پر  تنازعہ جاری ہے۔ آج کابینہ نے اس کو منظوری دے دی ہے ااور آئندہ اسے بجٹ اجلاس میں ایوان میں پیش کیا جائے گا ۔ اس دوران وقف سے متعلق ایک معاملے میں راجستھان ہائی کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے وقف بائی یوزر کو تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہیں وقف ٹریبونل کو اس معاملے میں فیصلہ کن اتھارٹی قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق  راجستھان ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ایک مسجد وقف کی تعریف کے تحت آتی ہے، اور صرف وقف ٹریبونل ہی اس سے متعلق تنازعات کا فیصلہ کر سکتا ہے۔اپنے تاریخی حکم میں، ہائی کورٹ نے ’وقف بائی یوزر ‘ کے اصول کو تسلیم کیا ہے، جسے مجوزہ ترمیمی بل میں منسوخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کورٹ نے مزید کہا کہ ایک غیر منقولہ جائیداد کی مستقل وقف مسجد کی تعمیر کے لیے اور اس مقصد کے لیے جسے مسلم قانون نے مذہبی طور پر تسلیم کیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وقف کی تعریف میں متذکرہ دیگر مقاصد کے لیے وقف ایکٹ، 19 کے سیکشن 3(r) کے تحت وقف املاک ہے۔

جسٹس بریندر کمار کی بنچ نے وقف ایکٹ کے سیکشن 85 [سول کورٹس کے دائرہ اختیار پر پابندی] کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بات کہی، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی بھی سول کورٹ، ریونیو کورٹ یا کوئی اور اتھارٹی وقف یا وقف املاک سے متعلق کسی بھی مقدمے یا قانونی معاملے کی سماعت نہیں کر سکتی اور ایسے مسائل کا تعین وقف ٹریبونل کے ذریعہ کیا جانا چاہیے جو ایکٹ 195 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔

جسٹس نے مزید اپنے فیصلے میں کہا کہ "اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ مسجد ایک ایسی جگہ ہے جسے نماز وغیرہ کے لیے مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے یہ ‘وقف’ کی تعریف میں آتا ہے اور ایک بار جب سوٹ جائیداد وقف ہو جاتی ہے، تو وقف املاک کے حوالے سے کسی بھی تنازع کا تصفیہ صرف وقف ٹریبونل کے ذریعے کیا جانا چاہیے نہ کہ ایکٹ 8 کے تحت امتناعی کے پیش نظر سول کورٹ سمیت کسی دوسری عدالت کے ذریعے۔

خبر کے مطابق راجستھان کے پھلودی ضلع کی ایک ٹرائل کورٹ نے پہلے فیصلہ دیا تھا کہ چونکہ سوٹ جائیداد کو وقف رجسٹر میں اوقاف جائیداد کے طور پر درج نہیں کیا گیا تھا، اس لیے عدالت کے دائرہ اختیار پر پابندی نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے کو ایک مسترد کر دیااور کہا ہے کہ چونکہ مسجد مذہبی مقصد کے لیے استعمال ہونے والی جگہ ہے، اس لیے اس کے بارے میں کوئی بھی قانونی چارہ جوئی صرف وقف ٹریبونل ہی کرے گا۔

جودھ پور میں ہائی کورٹ کی پرنسپل سیٹ پر جسٹس بیرندر کمار کی سنگل جج بنچ نے 20 فروری کو پھلودی ضلع کے کالرا گاؤں میں واقع مدینہ جامع مسجد سے متعلق ایک مقدمے کی دیکھ بھال کے سلسلے میں تنازعہ کو طے کرتے ہوئے 4 صفحات پر مشتمل حکم نامہ پاس کیا۔ واضح ہو کہ یہ مسجد گاؤں کی مسلم سوسائٹی کے مالی تعاون سے تعمیر کی گئی تھی۔