وقف ترمیمی بل :مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنےدارالعلوم دیوبند نے اپنا موقف رکھا
شدید مخالفت کرتے ہوئے وفد کی نمائندگی کرنے والے سید ارشد مدنی نے کہا کہ ’’اگر یہ ترامیم لاگو ہوتی ہیں تو مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘
نئی دہلی،12 دسمبر :۔
وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے میں پارلیمانی کمیٹی بھی مختلف مسلم نمائندوں اور اداروں سے رائے طلب کر رہی ہے۔ اسی سلسلے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی ادارہ دارالعلوم دیوبند نے بھی گزشتہ روز بدھ کو وقف (ترمیمی) بل 2024 میں مجوزہ تبدیلیوں کی مخالفت کی اور اپنے موقف سے مشترکہ پارلیانی کمیٹی کو واقف کرایا۔
ذرائع کے مطابق دارالعلوم دیوبند کے وفد کی مولانا ارشد مدنی نے قیادت کی اور بدھ کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے ساتھ میٹنگ کے دوران تقریباً دو گھنٹے تک بات کی، بل کے مضمرات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے خبردار کیا، ’’اگر یہ ترامیم لاگو ہوتی ہیں تو مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘
ذرائع کے مطابق دارالعلوم دیوبند کے وفد نے کمیٹی کے سامنے 22 نکاتی تجاویز بھی پیش کیں جس میں بل کو مسترد کرنے کی وجوہات بیان کی گئیں۔پارلیمانی ذرائع نے کہا کہ یہ منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوانین کے موثر نفاذ کو یقینی بنائیں۔
دریں اثناء جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا ہال نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اجلاس میں دارالعلوم دیوبند کو ہم نے انہیں اس لیے بلایا کہ دارالعلوم دیوبند تقریباً 150 سال پرانا ہے۔ ہم نے مجوزہ ترمیمی بل کے حوالے سے ان کے خیالات، ان کی تجاویز لی ہیں۔ وہ تحریری طور پر بھی دے چکے ہیں۔ جے پی سی اس کا جائزہ لے گی،‘‘ مولانا ارشد مدنی نے مجوزہ ترامیم بالخصوص تاریخی اور مذہبی مقامات پر ان کے اثرات کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ہندوستان بہت سی قدیم مساجد اور عبادت گاہوں کا گھر ہے، اور کئی صدیوں کے بعد، اب ان کے اصل عطیہ دہندگان یا وقف (ان کو عطا کرنے والوں) کا پتہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ مجوزہ ترامیم میں نمایاں خامیاں ہیں، جو ان کے پیچھے کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہیں ۔