وقف (ترمیمی) بل مسلمانوں کو اوقاف کے فوائد سے محروم کرنے والاقانون
یہ بل وقف املاک کے تحفظ کے بجائے تباہی کا باعث ،ضرورت پڑی تو مسلمان سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے:امیر جماعت سید سعات اللہ حسینی
نئی دہلی،09اگست:۔
مرکزی حکومت نے مسلمانوں کی جانب سے تمام تر مخالفتوں اور اعتراضات کے باوجود ایوان میں وقف ترمیمی بل2024 پیش کیا اور مخالفت کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اسے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کردیا گیا ہے۔فی الحال اس ترمیمی بل کا مستقبل کیا ہوگا ؟ اس میں مزید کس حد تک تبدیلی کی جائے گی ؟یہ تو وقت بتائے گا مگر موجودہ ترمیمی کے کے نقائص اور اس کے مضمرات پر ملی تنظیمیوں کی جانب سے تنقیدوں کا سلسلہ جاری ہے۔اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند نے بھی بل کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے نا قابل قبول قرار دیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے وقف ترمیمی بل 2024 کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”امت مسلمہ اسے قطعی قبول نہیں کرے گی۔ ہم اس نئی ترمیم UWMEED ( انٹی گریٹیڈ وقف مینجمنٹ امپاورمنٹ ایفی شینسی اینڈ ڈیولپمنٹ ) کے ذریعے وقف ایکٹ 1995 میں مجوزہ ترامیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس میں بظاہر مثبت پہلو دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اس کا اصل مقصد نظام اوقاف کی خود مختاری کو کم اور عام عوام کو اوقاف کے فوائد سے محروم کرنا ہے۔ یہ نیا مجوزہ قانون، وقف کے لئے پہلے سے موجود قانونی ڈھانچے کو ختم کرنے کی کوشش محسوس ہوتا ہے۔ آئین میں تمام مذہبی اقلیتوں کواپنے بزرگوں کے ورثے کو سنبھالنے اور مذہبی طریقے پر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ مگر مجوزہ بل میں ضلع کلکٹروں کو اس کے تصرف کا مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔ یہ نہ صرف وقف ایکٹ میں دی گئی خود مختاری کے خلاف ہے بلکہ واقف جس مقصد سے اپنی املاک وقف کرتے ہیں یعنی مسلمانوں کی سماجی فلاح و بہود کا کام، اس مقصد کے بھی خلاف ہے۔ موجودہ قانون میں وقف املاک سے متعلق کسی بھی تنازع کو ایک سال کے اندر تصفیہ کرنے کی بات کہی گئی ہے جبکہ نئے مجوزہ بل میں اس کی مدت کو بڑھا دیا گیا ہے جس سے ابہام اور قانونی تنازعات کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ نئے مجوزہ قانون میں متولیوں کی زبانی تقرری کی شق بھی ہٹا دی گئی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ متعلقہ افراد کے ساتھ مشورہ کیے بغیر ہی اس بل کو تیار کیا گیا ہے۔ اگر وقفی مسائل سے متعلق کسی ماہرکے ساتھ صلاح و مشورہ کرلیا جاتا تو واضح ہوجاتا کہ اس مسئلے کا تعلق مسلم پرسنل لاءسے ہے جس پر الگ سے کوئی قانون بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میڈیا کے ذریعے یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ وقف بورڈ ایکٹ سے دیگر مذہبی کمیونیٹیز کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی راہ کھلتی ہے، یہ سراسر جھوٹا الزام ہے اور ہم اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔وقف بورڈ حکومت کے منظور شدہ قوانین کے تحت ہی کام کرتا ہے اور حکومت اس کی نگرانی کرتی ہے اس لیے اس قسم کے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں ہے“۔
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ” یہ ترمیم، استعماری قوانین سے متاثر نظر آتی ہے جس میں ضلع کلکٹر کو حتمی اختیارات دے دیئے گئے ہیں۔ اس سے تو مسلمانوں کا اپنے مذہبی اوقاف کے انتظام کا بنیادی حق ہی سلب ہو جائے گا۔ اس ترمیم میں ریاستی حکومتوں کو وقف بورڈ کے تمام اراکین کی تقرری کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس سے بورڈ میں مسلم کمیونیٹی کے کم سے کم دو ارکان کے ہونے کی لازمی شرط بھی ختم ہوجائے گی۔اس ترمیم کے بعد’ سنٹرل وقف کونسل‘ میں مسلم ارکان پارلیمنٹ، ججوں اور وکلائ کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی ، اس میں دیگر مذہبی برادریوں کے ارکان بھی شامل کیے جا سکتے ہیں، یہ انتہائی قابل تشویش امر ہے“۔امیر جماعت نے کہا کہ ” چونکہ یہ بل مسلم کمیونٹی ، مسلم ممبران پارلیمنٹ یا متعلقہ افراد سے مشورہ کیے بغیر تیار کیا گیا ہے، اس لیے یہ فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ہوگیا ہے ، لہٰذا حکومت اس بل کو واپس لے۔ ہم اپوزیشن سمیت این ڈی اے کے اتحادیوں جیسے جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس طرح کے قوانین کی مخالفت کریں گے اور اسے نافذ ہونے سے روکیں گے۔ ہاں ، ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس قانون میں مجوزہ بعض تبدیلیاں جیسے بورڈ میں خواتین ، شیعہ ، بوہرہ جماعت یا دیگر مکاتب فکر کی شمولیت وغیرہ لیکن مجموعی حیثیت سے یہ بل نا مناسب ہے۔ ہم حکومت سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قوانین بنائے اور جو لوگ اس قانون سے متاثر ہوسکتے ہیں، انہیں بھی مشاورت کے عمل میں شامل کرے“۔
امیر جماعت نے مزید کہا کہ ” اگر ضرورت پیش آئی تو مسلمان سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ یہ بل وقف املاک کی حفاظت کے بجائے ان کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے اس کو روکنا بہت ضروری ہے۔