وقف ( ترمیمی ) بل اوقاف کے تقدس اور اس کے اختیارات کو کمزور کرتا ہے:ملک معتصم خان

جماعت اسلامی ہند نے وقف (ترمیمی) بل2024 سے متعلق 65 سوالات کے جوابات جے پی سی کو سونپے  

نئی دہلی،19 جنوری :۔

جماعت اسلامی ہند نے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی ( جے پی سی ) کی طرف سےاوقاف سے متعلق اٹھائے گئے سوالوں کے تحریری جواب سونپ دئے ہیں ۔میڈیا کو جاری ایک بیان میں جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کہا کہ وقف ( ترمیمی ) بل 2024کے متعلق 4نومبر2024 کو جے پی سی سے جماعت کے وفد کی تفصیلی ملاقات کے بعد جماعت کو جے پی سی کی جانب سے 65 سوالات پر مشتمل سوالنامہ موصول ہوا تھا، جماعت کی جانب سے تحریری طور پر تمام سوالات کے جامع جوابات جے پی سی کو پیش کر دیے گئے ہیں ۔

جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات بنیادی طور سے آئین کی توضیحات ،انتظامی اور قانونی ڈھانچے سے متعلق تھے۔ جی پی سی کے ممبران وقف کے مذہبی اور اس کے سیکولر پہلوؤں کے بارے میں جاننا چاہتے تھے ۔وہ یہ بھی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ کیا وقف کی جائداد سماج کے سبھی فرقوں کو فائدہ پہنچارہی ہیں یا اس کا فائدہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود رہتا ہے ۔اس ضمن میں قانونی پیچیدگیاں، وقف کا استعمال کرنے والے افراد کا نظریہ ، اوقاف پر غیر قانونی قبضہ اور وقف بورڈ کے کردار کے بارے میں سوالات پوچھے گئے تھے۔جی پی سی کے ممبران نے کلکٹر کے اختیارات اور متعلقہ محکموں کے عملی کردار کے بارے میں جانکاری حاصل کی ۔اس میں آئین اور وفاق کے درمیان ممکنہ محاذ آرائی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا ۔جے پی سی کے سوالوں میں وقف بورڈوں میں غیر مسلموں کو شامل کرنے، اس میں شفافیت اور نگرانی کے عمل میں سدھار لانے کے لیے اصلاحات پر بھی غور کیا گیا ہے ۔جے پی سی ممبران نے وقف کی ابتدا ، اس کی تاریخ اور اس کی مذہبی حیثیت کے بارے میں بھی سوالات کئے ۔

جماعت اسلامی کی طرف سے داخل کئے گئے تحریری جواب میں وقف ( ترمیمی) بل 2024 کے بارے میں مسلم سماج کی گہری تشویش کو اجاگر کیا گیا۔  ملک معتصم خان صاحب نے کہا کہ ” وقف ( ترمیمی ) بل اوقاف کے تقدس اور اس کے اختیارات کو کمزور کرتا ہے، جبکہ نظام اوقاف کی مضبوطی مسلمانوں کی سماجی ، معاشی اور مذہبی ترقی کے لیے نہایت ضروری ہے ۔نئے بل کا مسودہ وقف کے انتظامات کرنے والوں کے اختیارات کو کم کرنے والا، مسجدوں ، قبرستانوں اور درگاہوں جیسے قدیم اور تاریخی اوقاف کے لیے خطرہ پیدا کرنے والا محسوس ہوتا ہے ۔ جن اوقاف کے پاس معمول کے دستاویزات نہیں ہیں لیکن وہ صدیوں سے عوام کی خدمت کے لیے وقف ہیں ، ان کو ہٹانا یا ختم کرنے کا پرویزن،  ملکیت کے نئے دعووں کو جنم دینے اور قانونی تنازعات پیدا کرنے کا سبب بنے گا ۔اس سے اوقاف کو  سنگین قسم کا نقصانات پہنچ سکتے ہیں ۔وقف ( ترمیمی ) بل ضلع کلکٹروں کو اوقاف کی پوزیشن کو طے کرنے کا اختیار دیتا ہے جس کی وجہ سے مفادات کے ٹکراؤ جنم لے سکتے ہیں ۔کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اوقاف کو تصرف میں لینے ، ان پر غیر قانونی قبضہ کرنے والوں میں خود سرکاری محکمے شامل ہوتے ہیں ۔ اختیارات اور فیصلہ سازی کے عمل کو جوڈیشیل باڈی سے ایکزیکیٹیو کی جانب منتقل کرنے سے وقف کی جائدادوں کو غیر قانونی قبضوں سے آزاد کرانے جدوجہد کمزور ہوگی۔”

آپ نے مزید کہا کہ” وقف بورڈوں میں غیر مسلموں کو شامل کرنے کے سوال کو مسلم سماج اپنے مذہبی معاملات میں کھلی مداخلت کے طور پر دیکھتا ہے۔ بعض پہلوؤں سے مذکورہ بل مجرمانہ کردار کے افراد اور اوقاف پر  غیر قانونی قبضہ کرنے والے عناصر کی پشت پناہی کرنے والا محسوس ہوتا ہے ۔مذکورہ بل میں اوقاف کے مقاصد کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس طرح  اوقاف کے معاملات اور اس کا سروے کا کنٹرول مرکز کے تحت کرنے کی کوشش ریاستی وقف بورڈوں کو کمزور کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ ”

جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب میں جماعت اسلامی ہند نے اعداد و شمار کے ذریعے واضح کیا ہے کہ وقف جائدادیں قانونی مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ انتظامی ناکارہ پن کی وجہ سے بد انتظامی کا شکار ہیں۔

جماعت اسلامی کے نائب امیر نے یہ بھی کہا  کہ "جماعت اسلامی ہند اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم ہے کہ سماج اور ملک کی ترقی کے لیے اوقاف کی ترقی اور اس کی جائدادوں کا تحفظ ہر حال میں کیا جانا چاہئے۔ موجودہ وقف ( ترمیمی ) بل میں تمام متنازعہ ترامیم کو ختم کیاجانا چاہئے ۔  وقف بل میں تبدیلی کے بجائے پوری توجہ موجودہ وقف قوانین کو موثر طریقے سے نافذ کرنے پر مرکوز ہونی چاہئے ۔ہم اوقاف سے متعلق دیگر سوالوں کے جواب دینے کو بھی تیار ہیں ۔ہم جے پی سی کے معزز ممبران اور ملک کے عوام کے اندر پائے جانے والے شک شبہات کو دور کرنےکی اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گے۔”