وقف ترمیمی بل:سرکار کی نیت اور عمل  دونوں مشکوک

 اے ایم یو کے ٹیچرس ایسوسی ایشن کی جانب سے منعقدہ  عوامی میٹنگ میں ممتاز پروفیسر اور ماہرین کی  رائے،متعدد خدشات کا اظہار

نئی دہلی ،23 ستمبر :۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ روز  اتوار 22 ستمبر کو وقف (ترمیمی) بل 2024 پر  پہلی عوامی میٹنگ  کا انعقاد عمل میں آیا ۔ جس میں تدریسی اور غیر تدریسی عملے کے سو سے زیادہ ارکان نے شرکت کی۔ اس تقریب نے وقف کے نظام کے ممکنہ ہم آہنگی کے حوالے سے خدشات کی نشاندہی کی۔

رپورٹ کے مطابق  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس ایسو سی ایشن کے  سابق سیکرٹری آفتاب عالم نے کہا کہ بل کے بیان کردہ مقاصد اور مجوزہ قانون سازی میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ ایسے وقت میں جب بی جے پی اور مسلم کمیونٹی کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے، بی جے پی کی قیادت والی حکومت کو پہلے مزید عدم اعتماد پیدا کرنے کے بجائے اعتماد سازی پر توجہ دینی چاہیے،”

بل کی تعریف پر سوال اٹھاتے ہوئے، ماہر سیاسیات پروفیسر آفتاب نے مرکز کی جانب سے واقف کے لئے پانچ سال مسلمان ہونے کی شرط پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ    آیا کوئی شخص پانچ سال سے مسلمان ہے یا نہیں اس کا سرٹیفکیٹ کیا سرکاری دفتر سے جاری ہوگا۔ یہ شق کہ صرف پانچ سال کا مسلمان ہی اوقاف دے سکتا ہے، بل کے ارادے پر شک پیدا کرتا ہے،” ۔ اے ایم یوکے پروفیسر سعود عالم قاسمی، جنہیں حال ہی میں اسلامی فقہ کے ماہر کی حیثیت سے متنازعہ بل پر غور و فکر کرنے کے لیے بنائی گئی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے مدعو کیا تھا، بل کی موجودہ شکل پر  کہا کہ “بل میں سب سے زیادہ متنازعہ نکتہ 1995 کی قانون سازی سے "وقف بائی یوزر کا خاتمہ ہے ” جس نے وقف املاک کے مالکان کو اختیار دیا جن کے پاس ملکیت کی طاقت کے ساتھ زمین کی ملکیت کے کاغذات نہیں ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ضلع مجسٹریٹ کو وقف املاک کی نشاندہی کرنے کا اختیار دینے سے کمیونٹی کے ذہن میں مزید شکوک پیدا ہوئے کیونکہ ضلع مجسٹریٹ ریاستی حکومت کی آواز ہوتا ہے۔ "کمیونٹی یہ نہیں بھولی ہے کہ کس طرح 1949 میں ایودھیا کی مسجد میں ہندو مورتیاں پراسرار طور پر نمودار ہونے پر ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے کارروائی کرنے سے انکار کر دیاتھا۔

پروفیسر قاسمی نے کہا کہ یہ عام طور پر جانا جاتا ہے کہ وقف املاک کا بدعنوان ٹرسٹیوں کے ذریعہ غلط استعمال کیا جا رہا ہے لیکن اس بات پر زور دیا کہ موجودہ قانون میں ان کو سزا دینے کی دفعات موجود ہیں۔ بدعنوانوں کو یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں سے سرپرستی ملتی رہی ہے۔ موجودہ نظام کو ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرکے ایک مثال قائم کرنی چاہیے جو ذاتی فائدے کے لیے وقف  کا غلط استعمال کرتے ہیں  ۔

پروفیسر قاسمی نے  وقف بورڈ کا رکن بننے کی اہلیت کے طور پر لفظ ’مسلم‘ کو ہٹانے کے مقصد پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا دو غیر مسلم ارکان یا قانون ساز ارکان کی نیت  پر کوئی تنازعہ نہیں ہے کیونکہ بعض اوقات کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے ان کی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن لفظ مسلم کو یکسر ہٹانے سے سرکار کی نیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے  جبکہ ہندو مذہبی اوقاف سے متعلق اداروں کی قانون سازی میں  ایسی کوئی شق نہیں ہے۔