وقف بورڈ کو لولا اور لنگڑا بنانے کی مکمل تیاری،آج لوک سبھا میں بل لائے گی مودی سرکار

 وقف بورڈ میں بھی کلکٹر راج لانے کی کوشش،ضلعی کلکٹر ہی طے کریں گے وقف جائیداد،غیر مسلم بھی ہو سکتے ہیں ممبر،بوہر اور آغا خانی کے لئے علیحدہ بورڈ

نئی دہلی ،08اگست :۔

مرکزی حکومت وقف بورڈ میں بڑی ترمیم کی تیاری کر رہے۔جب سے ایوان میں اس سلسلے میں بل لانے کا عندیہ ملا ہے مسلمانوں میں زبر دست بے چینی اور تشویش پائی جا رہی ہے۔ترمیم کی جو تجاویز چھن کر باہر آ رہی ہے اس سے یہ کہا جا رہا ہے کہ مرکزی حکومت وقف بورڈ کے تمام اختیارات سلب کر کے اسے ایک لولا اور لنگڑا بورڈ بنانے کی پوری تیاری کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں نہ مسلم دانشور وں اور علما سے گفتگو کی گئی ہے اور نہ ہی عوام مسلمانوں کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی گئی ۔اپنے رویے کے مطابق مرکزی حکومت نے پھر ایک بار ہندوستانی مسلمانوں کا ایک اہم ادارے کو منمانے طریقے سے چلانے جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق  جمعرات کو لوک سبھا میں ہونے والی کارگزاری سے متعلق بدھ کے روز جو فہرست جاری کی گئی، اس کے مطابق پہلے وقفہ سوال ہوگا، پھر ’پیپر ‘ کا عمل انجام پائے گا، اور اس کے بعد لوک سبھا میں ’وقف (ترمیمی) بل 2024‘ دوپہر تقریباً 12 بجے پیش کیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق مرکزی حکومت وقف ایکٹ 1923 کو ختم کرنے کے مقصد سے یہ بل لا رہی ہے اور ساتھ ہی مسلم وقف ایکٹ 1995 میں کم و بیش 40 ترامیم بھی کی جائیں گی۔ حالانکہ ابھی یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ ترامیم کس طرح کی ہوں گی۔  قابل ذکر ہے کہ اس بل میں بوہرہ اور آغا خانی طبقہ کے لیے علیحدہ بورڈ بنانے کا راستہ ہموار ہوگا۔ اسے ’بوہرہ وقف‘ اور ’آغا خانی وقف‘ نام دیا گیا ہے۔

مجوزہ بل کے سلسلے میں معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ اس بل کے ذریعہ حکومت ”وقف “ کی نئی تعریف کرنا چاہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جو پچھلے پانچ سال سے اسلام پر پابند رہا ہو وہی اپنی جائداد کو وقف کر سکتا ہے۔ ترمیمات میں حکومت یہ بھی طے کر رہی ہے کہ وقف کی جائداد میں ہونے والی آمدنی کہاں خرچ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں باتیں اسلامی قانون کے خلاف ہیں کیونکہ اسلامی قانون کے تحت کوئی بھی، یہانتک کہ غیر مسلم بھی، اپنی جائداد وقف کر سکتا ہے اور وقف کی آمدنی صرف اسی مد میں صرف کی جا سکتی ہے جسے وقف کرنے والے (واقف) نے طے کیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ نئی ترمیمات نے یہ راستہ بھی کھول دیا ہے کہ وقف کاؤنسل اور ریاستی وقف بورڈوں کے ممبران غیر مسلم ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وقف جائدادوں کو اب غیر مسلم ایڈمنسٹریٹر چلائیں گے۔ مجموعی طور پر نئی ترمیمات کی منظوری ہونے پر ایک کلکٹر راج وجود میں آئے گا جو فیصلہ کرے گا کہ کون جائداد وقف ہے اور کون نہیں ہے۔ وقف ٹرائیبونل کے فیصلے بھی آخری نہیں ہوں گے جبکہ ملکیت کے سلسلے میں کلکٹر کا فیصلہ آخری ہوگا۔

نئی ترمیمات نے ریاستی حکومتوں کو بھی یہ اختیار دیا ہے کہ وہ جسے چاہے وقف بورڈ کا ممبر بنائیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ممبر مسلمان بھی ہوں۔   انہوں نے دعوی کیاکہ ان ساری تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس بل کے ذریعے مسلم علماء کا یہ حق چھین لیا گیا ہے کہ وہ وقف کے بارے میں اسلامی قانون کی تعیین و تشریح کریں۔ اسی کے ساتھ وقف چلانے کی ذمہ داری بھی غیر مسلمین کے ہاتھوں میں دی جا رہی ہے جو کہ مذہبی سماجوں کے اس حق کی پا مالی کرتا ہے کہ وہ اپنے اوقاف کو اپنے مذہبی قانون کے مطابق چلائیں۔