وقف ایک مذہبی امانت ہے، سرکاری اجارہ داری کے خلاف عدالت سے انصاف کی امید : مولانا محمود اسعد مدنی

نئی دہلی: 16 اپریل :۔
آج سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے خلاف جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی سمیت مختلف جماعتوں اور شخصیات کی طرف سے دائر عرضیوں پر سماعت کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشواناتھن پر مشتمل تین رکنی بنچ نےفریقین کے دلائل دوگھنٹوںتک بغور سنا۔ جمعیة علماء ہند کی نمائندگی ( عرضی نمبر713/2025) میں معروف سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے کی جب کہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ منصور علی خاں ہیں۔
وکیلوں نے عدالت میں وقف ایکٹ کی متعدد خامیوں کو اجاگرکیا بالخصوص وقف کے بنیادی ڈھانچہ میں تبدیلی ، واقف کے لیے پانچ سال تک باعمل مسلمان ہونے کی شرط، وقف بائی یوزر کا خاتمہ اور غیر مسلموں کو وقف کونسل اور بورڈ میں ممبر بنانا شامل ہیں۔ یہ ایسی بنیادی خامیاں ہیں جو آئین ہند کی بنیادی دفعات کے خلاف ہیں ، نیز ان کی وجہ سے وقف کی شرعی حیثیت متاثر ہورہی ہیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ وقف بائی یوزر کے خاتمے سے چار لاکھ جائیدادیں متاثر ہوں گی ،ان کے علاوہ تاریخی ورثے کی حامل عمارتیں مثلاً جامع مسجد وغیرہ کی حیثیت خطرے میں ہیں۔
آج عدالت کی کارروائی پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے صدر جمعیة علماءہند مولانا محمود مدنی نے کہا کہ وقف ایک مذہبی امانت ہے، جس پر سرکاری اجارہ داری اور وقف کی حیثیت بدلنے کا کوئی جواز نہیں۔ ہم عدالت سے انصاف کے متمنی ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ دستور ہند کے تحت ہمارے مذہبی و آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ تمام اقلیتوں کی مذہبی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیة نے اپنی مجلس عاملہ میں اس قانون کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا تھا ، اس وقت بھی وقف بائی یوزر کے تحت لاکھوں جائیدادوں کا مسئلہ زیر تشویش رہا۔آج چیف جسٹس نے ہماری اس تشویش کو تقویت دی ہے۔تاہم ہمیں عدالت سے انصاف اور آئین کی حکمرانی کی امید ہے۔