وقف ایکٹ2013 : کسی بھی طرح کی تبدیلی نا قابل قبول

مودی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں  وقف ایکٹ میں تبدیلی کا بل لانےکے اشارے کے درمیان مسلم پرسنل لا بورڈ کا سخت اعتراض،قانونی اور جمہوری راستے اپنانے کا انتباہ

نئی دہلی،05اگست :۔

مرکز میں مودی حکومت کی آمد کے بعد بڑے پیمانے پر مسلم شناخت کے حامل اداروں کو زک پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں ۔بہت سے مسلم اداروں کو بند کر دیا گیا ہے اور متعد اداروں کی حیثیت ہی صفر کر دی گئی ہے ۔اب ایک اور بڑے ادارے کو ناقص بنانے اور اختیارات سلب کرنے کے اقدامات شروع ہو گئے ہیں اور وہ ہے وقف ایکٹ ۔خیال رہے کہ وقف ایکٹ بی جے پی ممبران پارلیمنٹ اور کارکنان کے ذہن میں ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے اور اس سلسلے میں متعدد مرتبہ بیان بازی بھی کی جا چکی ہے ۔اب حکومت نے وقف ایکٹ میں ترمیم کر کے اس کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس  کے خلاف مسلم تنظیموں اور سر براہان نے  آواز بلند کی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  وقف ایکٹ میں کسی بھی طرح کی ترمیم اور نوعیت کی تبدیلی کو نا قابل قبول قرار دیا ہے۔

بورڈ نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے موقف کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بورڈ یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف ایکٹ 2013، میں کوئی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادوں کی حیثیت و نوعیت بدل جائے یا اس کو ہڑپ کرلینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہوگی- اسی طرح  وقف بورڈوں  کے اختیارات  کو کم یا محدود کرنے کو بھی قطعاً  برداشت نہیں  کیا جائے گا-

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  کے ترجمان  ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک پریس بیان میں  کہا کہ مصدقہ اطلاعات  کے مطابق حکومت ہند وقف ایکٹ 2013 میں تقریباً 40 ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت کو بدل دینا چاہتی ہے تاکہ اس پر قبضہ کرنا اور انہیں  ہڑپ لینا آسان ہوجائے۔ اطلاعات  کے مطابق اس نوعیت  کا بل اگلے ہفتہ پارلیمنٹ  میں  پیش  کیا جاسکتا ہے۔ آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ  یہ واضح کردینا ضروری سمجھتا ہے کہ وقف جائیدادیں مسلمانوں  کے بزرگوں  کے دیئے ہوئے وہ عطیات  ہیں جنہیں  مذہبی اور خیراتی  کاموں  کے لئے وقف کیا گیا ہے- حکومت  نے بس انہیں  ریگولیٹ  کرنے کے لئے وقف ایکٹ  بنایا ہے۔

انہوں نے آگے کہا کہ وقف ایکٹ اور اوقافی جائیدادوں  کو دستور ھند اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس لئے حکومت ھند اس قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی  جس سے ان جائیدادوں کی نوعیت اور حیثیت ہی بدل جائے۔

انہوں  نے کہا کہ اب تک حکومت  نے مسلمانوں  سے متعلق جتنے بھی فیصلے اور اقدامات  کئے ہیں اس میں  ان سے کچھ چھینا ہی ہے، دیا کچھ نہیں، چاہے مولانا آزاد فاؤنڈیشن کا بند کیا جانا ہو یا اقلیتی  اسکالرشپ کی منسوخی  یا پھر تین  طلاق سے متعلق  قانون ہو-  انہوں نے کہا  کہ یہ معاملہ مسلمانوں  تک محدود نہیں  رہے گا- وقف جائیدادوں  پر تیشہ چلانے کے بعد اندیشہ ہے کہ اگلا نمبر سکھوں اور عیسائیوں  کے اوقافی جائیدادوں اور پھر ھندوؤں کے مٹھوں اور دیگر مذہبی جائیدادوں پر بھی آسکتا ہے۔

ڈاکٹر  الیاس نے واضح کیا کہ مسلمان وقف ایکٹ میں  کوئی ایسی ترمیم ہرگز ہرگز بھی قبول  نہیں  کرےگا جو اس کی حیثیت  کو بدل کر رکھ دے۔ اسی طرح وقف بورڈوں  کے قانونی اور عدالتی حیثیت اور اختیارات میں مداخلت کو بھی برداشت نہیں  کیا جائے گا۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  کے ترجمان نے این  ڈی اے کی حلیف پارٹیوں اور دیگر اپوزیشن  سیاسی پارٹیوں  سے پرزور اپیل  کی ہیکہ وہ ہر ایسی تجویز و ترمیم کو پوری طرح  مسترد کردیں اور اسے ہرگز ہرگز بھی پارلیمنٹ سے منظور نہ ہونے دیں-

ڈاکٹر  الیاس نے آگے کہاکہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  مسلمانان  ھند اور ان کی دینی و ملی جماعتوں  سے اپیل  کرتا ہے کہ وہ مرکزی حکومت  کے اس اقدام کے خلاف متحد ہوکر پیش قدمی کریں۔ بورڈ  بھی اس اقدام کو ناکام بنانے کے لئے ہر طرح کے قانونی اور جمہوری  راستے اختیار کرے گا۔