وقف ایکٹ : مرکزی حکومت کی  مجوزہ ترمیم ، وقف بورڈ کے اختیارات سلب کرنے کی کوشش

ملی تنظیموں کے علاوہ سماجی اور سیاسی شخصیات نے بھی مودی حکومت کی نیت پر اٹھائے سوال ،خدشات کا کیا اظہار

نئی دہلی ،05 اگست :۔

وقف ایکٹ ایک لمبے عرصے سے آر ایس ایس اور دائیں باز و کی نظریات کی حامل تنظیموں کی نظروں میں ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے۔2014 کے بعد مرکز میں مودی حکومت کی تشکیل کے بعد وقف کے خلاف مسلسل بی جے پی رہنماؤں کی جانب سے بیانات سامنے آتے رہے ہیں ۔انہوں نے ہمیشہ وقف ایکٹ کو غیر قانونی قرار دے کر اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اب مرکزی حکومت نے آر ایس ایس کی دیرینہ خواہشات کو  عملی جامہ پہنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔

اس سلسلے میں اس نے پارلیمنٹ میں بل پیش کرنے کی پوری تیاری کر لی ہے۔ بل میں وقف قوانین میں تقریباً 40 ترامیم تجویز کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔  گزشتہ روز جمعہ کو مرکزی وزارت نے بل کو منظوری بھی دے دی ہے۔جس سے نہ صرف وقف بورڈ کے تمام اختیارات کو سلب کر لیا جائے گا بلکہ ملک بھر میں وقف املاک کو تباہ کرنے کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا ۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس وقت ملک میں وقف بورڈ کو مطلق اختیارات حاصل ہیں اور بورڈ کسی بھی زمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتا ہے جبکہ اس کے بر عکس وقف قوانین بورڈ کو اپنی املاک پر مناسب کنٹرول موثر انتظام اور اس کے تحفظ کےلئے اختیارات فراہم کرتے وہیں ان اختیارات کو سلب کرلینے سے نہ صرف بورڈ کے لئے اپنی املاک پر دعویٰ کرنا مشکل ہو جائے گا بلکہ پہلے سے وقف املاک پر جو غیر قانونی قبضہ ہے وہ بھی آزاد ہو جائیں گے۔

خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیم کے بعد بورڈ کے اختیارات کو محدود کیا جا سکتا ہے جبکہ اس میں خواتین کو بھی نمائندگی دیتے ہوئے ان کے اختیارات میں اضافہ کئے جانے کا امکان ہے۔ یعنی وقف بورڈ کے اختیارات کم کرنے اور خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی پوری تیاری ہو چکی ہے۔ خ  اس بل کے تحت کسی بھی جائیداد کو اپنی جائیداد کہنے کے وقف بورڈ کے غیر معمولی اختیارات میں کمی کر کے اس پر لگام لگایا جا سکتا ہے۔ بل میں قوانین کے کچھ دفعات کو منسوخ کرنے کی تجویز کی بھی بات کہی جا رہی ہے  خواتین کی بورڈ میں نمائندگی یقینی بنانے کے لیے وقف بورڈ کی ساخت اور طریقہ عمل میں تبدیلی لانے کے لیے دفعہ 9 اور دفعہ 14 میں ترمیم کیا جا سکتا ہے۔ قوانین میں ترمیم کے بعد وقف جائیداد کی نگرانی میں مجسٹریٹ بھی شامل ہو سکتے ہیں جبکہ تنازعات کے نپٹارہ کے لیے وقف بورڈوں کے ذریعہ دعویٰ کی گئی جائیداد کا نئے طور سے تصدیق کیا جائے گا۔

مرکزی حکومت کے اس ارادے سے جہاں ایک طرف بی جے پی کارکنان  میں خوشی ہے وہیں مسلمانوں میں سخت بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں بی جے پی کے علاوہ اس کی اتحادی جماعت جے ڈی یو نے بھی اعتراض کیا ہے ۔اسٹیک ہولڈرس سے مشاورت کے بغیر ترمیم پر تنقید کی ہے۔   جے ڈی یو کے ترجمان نیرج کمار نے کہا کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیم کے مجوزہ بل کا فارمیٹ کیا ہے۔ بہار میں نتیش کمار نے وقف املاک کے انتظام کے لیے ضروری اقدامات کیے ہیں۔ وقف املاک پر ہاسٹلز ، شاپنگ مالز سے لے کر یتیم خانے بنائے گئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ مرکزی حکومت بہار کے وقف ماڈل پر کام کرے گی۔

جنتا دل یونائیٹڈ کے سابق ایم پی مولانا غلام رسول بلیاوی نے   کہا کہ ملک میں عرصہ دراز سے وقف بورڈ ہے اور جو بھی اراضی وقف بورڈ کی ہے ،کافی زمین پر قبضہ ہو چکا ہے۔ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت، سب سے پہلے انہیں تجاوزات سے آزاد کرانا چاہیے۔جے ڈی یو لیڈر غلام رسول بلیاوی نے کہا کہ یقینی طور پر وقف کی ملکیت والی جائیداد سے متعلق تمام قوانین پہلے سے موجود ہیں ۔ یہ لوگ آج جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ آئین کو بدلنے کی تیاری ہے ۔دوسری طرف انہوں نے کہا کہ پٹنہ اور کولکاتہ سمیت کئی شہروں میں وقف بورڈ کی جائیداد ہے اور کئی جگہوں پر زمین پر قبضہ کیا گیا ہے۔   ان کا مزید کہنا تھا کہ وقف بورڈ کے حوالے سے مرکز میں بیٹھی حکومت کا نقطہ نظر ہمیں بالکل درست نہیں لگتا ۔

آر جے ڈی کے ترجمان مرتیونجے تیواری نے کہا کہ حکومت کی نظریں کہیں اور ہیں ، اس کا ہدف کہیں اور ہے۔ کسی خاص مذہب کو نشانہ بنانا ، متنازعہ ایشوز کو اٹھانا ، حقیقی مسائل پر بحث کو روکنا اسی لیے مرکز کی موجودہ حکومت یہ طریقے اپنا رہی ہے۔ جے ڈی یو اور ٹی ڈی پی بی جے پی کی حلیف ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کو بتانا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔ ملک اپنے اصولوں اور قانون سے چلے گا ، اپوزیشن مضبوط ہے۔

حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اور اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے کہا ، ’ وقف ایکٹ میں یہ ترمیم وقف املاک کو چھیننے کی نیت سے کی جارہی ہے۔ یہ آئین میں دیے گئے مذہبی آزادی کے حق پر حملہ ہے۔ شروع سے ہی آر ایس ایس وقف املاک کو چھیننے کا ارادہ رکھتی ہے۔

وقف ایکٹ میں ترمیم کے امکان پر مورخ اور مسلم اسکالر ایس عرفان حبیب نے کہا ، ’ سوال حکومت کی نیت پر ہے کہ کیا وہ وقف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے، اگر کوئی قانون آرہا ہے تو اسے بھلائی کے لیے ہونا چاہیے۔ جیسا کہ بات کی جا رہی ہے ، خواتین کو بھی اس کا حصہ بننا چاہیے۔ 1954 میں جب وقف بورڈ بنایا گیا تو اس کے ارادے اچھے تھے۔ لوگ اپنی جائیداد وقف کے نام پر دیتے تھے ، جس پر مدارس ، امام بارگاہیں بنتی تھیں یا دیگر کام ہوتے تھے۔

واضح رہے کہ وقف ایکٹ میں ترمیم کی بحث کے درمیان مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھی پہلے ہی اپنا موقف واضح کر دیا ہے کہ حکومت کے ذریعہ کوئی بھی ایسا قدم جس سے وقف املاک کی نوعیت اور حیثیت میں تبدیلی آئے اور لوگوں اور حکومت کے ذریعہ وقف املاک پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے ایسا ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔