وقف اسلام کا لازمی حصہ نہیں ،غیر مسلموں کی شمولیت جائز:حکومت

متنازعہ وقف ترمیمی قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ  میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی دلیل،سماعت جاری

نئی دہلی ،21 مئی:۔

متنازعہ وقف ترمیمی قانون کے آئینی جواز کو چلینج کرنے والی عرضیوں پر آج عدالت عظمیٰ میں  ایک بار پھر سماعت ہوئی ۔ سپریم کورٹ عبوری حکم جاری کرنے کے مقصد سے یہ سماعت کر رہی ہے اور آج مرکزی حکومت کی طرف سے دلیلیں پیش کی گئیں۔ چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ کے سامنے 20 مئی کو عرضی گزاروں کے وکلاء نے وقف ترمیمی قانون میں موجود کئی خامیوں کو سامنے رکھا تھا، اور آج حکومت کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا اپنی بات رکھی۔

سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے آج اپنی بات کی شروعات اس طرح کی کہ جن اشخاص کے ذریعہ مفاد عامہ عرضیاں داخل کی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی متاثرہ فریق یا شخص نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس قانونی طاقت ہے یا نہیں، یہ سوال ہی نہیں ہے۔ یہی واحد بنیاد تھی جس پر پہلے کسی قانون پر روک لگائی گئی تھی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کچھ عرضی دہندگان پورے مسلم طبقہ کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔

مرکزی حکومت  کی جانب سے ایک مضحکہ خیز دلیل سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کورٹ میں یہ رکھی کہ  وقف – اگرچہ ایک اسلامی تصور ہے – اسلامی مذہب کا لازمی حصہ نہیں ہے اور وقف بورڈ سیکولر کام انجام دیتے ہیں۔ لہذا، وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو اجازت دینا قانونی طور پر درست ہے۔

مہتا نے عدالت کو بتایا، "چریٹی ہر مذہب میں موجود ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ایک بنیادی مذہبی عمل ہے۔ مہتا نے دلیل دی کہ ترمیم کا مقصد غلط استعمال کو روکنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد وقف اراضی کے دعووں میں 116 فیصد اضافہ ہوا ہے، نجی اور سرکاری زمینوں پر بہت سے جھوٹے دعوے کیے جا رہے ہیں۔مہتا نے  اس دوران دعویٰ کیا کہ   یہ قانون سنجیدہ بحث کے بعد منظور کیا گیا تھا۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے 36 بار میٹنگ کی اور 96 لاکھ تجاویز حاصل کیں۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ہندو انڈومنٹ بورڈز کے برعکس، جو براہ راست مذہبی رسومات سے نمٹتے ہیں، وقف بورڈ زیادہ تر سیکولر معاملات جیسے جائیداد کے ریکارڈ اور اکاؤنٹس کا انتظام کرتے ہیں۔مہتا نے کہا، ’’دو غیر مسلم ارکان کے ہونے سے وقف بورڈ کا کردار نہیں بدلے گا۔

مرکزی حکومت کی طرف سے ایک اہم بات عدالت میں یہ رکھی گئی کہ استعمال کی بنیاد پر وقف مانی جانے والی جائیداد یعنی ’وقف بائی یوزر‘ کا اصول کہیں سے بھی بنیادی حق تصور نہیں کیا جا سکتا۔