وشو ہندو پریشد کی میٹنگ میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق ججوں کی شرکت
نئی دہلی میں منعقدہ تقریب میں 30 سابق ججوں کے ساتھ مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال کی بھی شرکت ،کاشی ،متھرا اور وقف بورڈ سمیت تبدیلی مذہب رہا موضوع بحث
نئی دہلی،10 ستمبر :۔
مودی حکومت کی آمد کے بعد شدت پسند ہندوتو نواز تنظیمیں مسلمانوںاور اسلامی تشخص کے خلاف اپنی دیرینہ خواشات کی تکمیل کے لئے کھل کر منظر عام پر آ گئی ہیں ۔اب یہ ہندوتو نواز تنظیمیں حکومت میں بیٹھے وزرا اور سابق ججوں کوبھی اپنا ہمنوا بنا رہی ہیں۔حالیہ دنوں میں گزشتہ 8 ستمبر اتوار کو نئی دہلی میں انڈیا ہیبیٹیٹ سینٹر میں منعقد وشو ہندو پریشد کی ایک تقریب میں 30 سے زائد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے شرکت کی ۔وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے قانونی سیل (ودھی پرکوشٹھ)کے زیر اہتمام یہ میٹنگ منعقد کی گئی تھی ۔ حیرت انگیز طور پر اس میٹنگ میں مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال بھی موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق، میٹنگ میں جن مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا ان میں وارانسی اور متھرا کے مندروں سے متعلق قانونی تنازعات، وقف (ترمیمی) بل کے ساتھ ساتھ تبدیلی مذہب کے معاملے بھی شامل تھے۔
میڈیا رپورٹوں کےمطابق، وی ایچ پی کے صدر آلوک کمار نے کہاکہ ‘ہم نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کو مدعو کیا تھا۔ میٹنگ میں سماج کو درپیش اجتماعی مسائل – جیسے وقف (ترمیمی) بل، مندروں کو واپس حاصل کرنا، مندروں کو حکومت کے کنٹرول (سوسائٹئ کے توسط سے) میں دینا، تبدیلی مذہب وغیرہ – پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ میٹنگ کا مقصد ججوں اور وی ایچ پی کے درمیان آزادانہ خیالات کا تبادلہ کرنا تھا، تاکہ دونوں ایک دوسرے کے تئیں سمجھ پیدا کر سکیں۔‘مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال نے میٹنگ میں شرکت کی اور بعد میں اس تقریب کی تصاویرایکس پر پوسٹ کیں۔
وی ایچ پی کے ایک سینئر لیڈر نے بتایا کہ ‘یہ پہلا موقع ہے جب ہم نے اس طرح کی تقریب کا اہتمام کیا ہے۔ ہم اسے باقاعدگی سے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وی ایچ پی کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں ریٹائرڈ ججوں کی شرکت اس لحاظ سے اہم ہے کہ وارانسی میں گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ پر ہندوتوا تنظیم کے دعوے جیسے معاملات فی الحال عدالت میں زیر التوا ہیں۔