وشو ہندو پریشد کی اشتعال انگیزی کے بعد اوررنگزیب کے مقبرے کی سیکورٹی میں اضافہ
ہندو شدت پسند تنظیموں کا احتجاج جاری،پولیس دستہ تعینات،عوامی آمد و رفت پر عارضی پابندی

نئی دہلی ،17 مارچ :۔
ملک میں اورنگ زیب کے خلاف بیان بازی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔تاریخ کے بعد اب اورنگ زیب کے قبر کو بھی منہدم کرنے کی بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔وشو ہندو پریشد سمیت متعدد ہندو تنظیمیں اعلان کر چکی ہیں کہ مہاراشٹر کی زمین پر اورنگ زیب کے مقبرے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس درمیان یہاں پر بڑی پولیس تعینات کی جا سکتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کو بھیڑ کے ذریعہ مقبرے پر حملے کا بھی خدشہ ہے۔ایسی صورت میں مقبرے کے تحفظ کیلئے پولیس دستہ انتظامیہ کی جانب سے تعینات کیا گیا ہے۔
معلومات کے مطابق اورنگ زیب کا مقبرہ چھتر پتی سنبھاجی نگر شہر سے تقریباً 30 کلو میٹر دور واقع ہے۔ ابھی تک وہاں جانے والے راستے پر کوئی روک نہیں لگائی گئی ہے لیکن مقبرے کے پاس یا پھر وہاں ڈائریکٹ داخلہ پر ابھی کے لئے روک لگا دی ہے۔آئندہ حکم تک کوئی بھی سیاح یا شخص اس کے قریب نہیں جا پائے ۔
دریں اثنا چھترپتی شیواجی مہاراج کی یوم پیدائش کی تقریبات کے دوران وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی قیادت میں دائیں بازو کی تنظیموں نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بابری مسجد طرز کی تحریک شروع کر دی ہے۔
احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر ریاستی پولیس نے خلد آباد میں واقع اورنگ زیب کے مقبرے کی سیکیورٹی سخت کر دی ہے اور احاطے میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ معاملہ آئندہ دنوں اور مہینوں میں مہاراشٹر اور ملک کی سیاست میں ایک بڑے تنازع کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔یہ مسئلہ مہاراشٹر مقننہ کے جاری بجٹ اجلاس کے دوران بھی نمایاں طور پر زیر بحث آیا اور سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
واضح رہے کہ چھٹے مغل شہنشاہ اورنگ زیب (3 نومبر 1618-3 مارچ 1707) کی آخری آرام گاہ ہے، خلد آباد میں ایک سادہ اور بے نشان قبر کے طور پر موجود ہے اور یہ آثار قدیمہ کے محکمے کے کنٹرول میں آتی ہے۔ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے فراہم کی جانے والی مالی امداد کو بند کرے۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اورنگ زیب کی قبر آثار قدیمہ کے ادارے کے تحت ہے اور ریاستی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے، تاہم اورنگ زیب کی توقیر کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔یہ معاملہ مہاراشٹر اور ملک کی سیاست میں ایک سنگین تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے اور سیاسی حلقوں میں اس پر گرما گرم بحث جاری ہے۔