ورنداون :  بانکے بہاری مندر انتظامیہ نے مسلمان درزیوں سے خریداری  نہ کرنے کےمطالبے کو مسترد کر دیا

شری کرشنا جنم بھومی مکتی سنگھرش نیاس کے سر براہ نے مسلم درزیوں سے دیوتاؤں کے کپڑوں کی خریداری نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے سینئر پجاریوں نے قدیم روایت اور مسلمان کاریگروں کی مہارت کا حوالہ دیتے ہوئے مسترد کر دیا   

نئی دہلی ،14 مارچ :۔

ہولی کے دوران بڑھتی ہوئی مسلم مخالف نفرت کے درمیان، اتر پردیش کے ورنداون میں بانکے بہاری مندر کے پجاریوں نے مسلمان کاریگروں سے دیوتاؤں  کے لیے کپڑے نہ خریدنے  کے ہندوتو شدت پسندوں کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ بانکے بہاری مندر کے سینئر پجاریوں نے کہا کہ  مندر کی روایات میں مذہبی امتیاز کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

در اصل کچھ شدت پسندوں نے بانکے بہاری مندر کے انتظامیہ سے مطالبہ  کیا تھا کہ وہ مندر میں دیوتاؤں کو پنایا جانے والا لباس مسلمان کاریگروں سے نہ بنوائیں اور نہ ہی خریدیں۔ہندوتو شدت پسندوں کے اس مطالبہ کو مندر انتظامیہ نے مسترد کر دیا ہے۔ اور کہا کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے ہم اسے بند نہیں کر سکتے۔

در اصل ہندو شدت پسندوں کے اس مطالبے کے پیچھے مسلمانوں کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچانا ہے جس پر مندر انتظامیہ نے پانی پھیر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیش شرما پھلہاری، جو شری کرشنا جنم بھومی مکتی سنگھرش نیاس کی قیادت کرتے ہیں، نے مندر کے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ  مسلمان   کاریگروں کے تیار کردہ ملبوسات کی خریداری بند کردے۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ  بھگوان کرشن کا لباس صرف ان لوگوں کو تیار کرنا چاہیے جو ” دھارمک روایات  پر عمل پیرا ہوں۔

دنیش شرما کے مطالبہ کو گزشتہ روز جمعرات کو  مسترد کرتے ہوئے، سینئر پجاری گیانیندر کشور گوسوامی نے صحافیوں کو بتایا کہ مندر کی انتظامیہ نے  میٹنگ کی اور متفقہ طور پر یہ عجیب مطالبہ قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

    یہ مندر 164 سال پرانا ہے۔ ہفتے کے دنوں میں تقریباً 30,000 سے 40,000 عقیدت مند درشن پر آتے ہیں۔ یہ تعداد اتوار اور تعطیلات میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔”ہم پر  بھگوان کے کپڑے بدلتے رہنے کا زبردست دباؤ ہے۔ ہمیں تہواروں کے دوران مورتی کے لیے خصوصی کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمان درزی انہیں بغیر کسی رکاوت کے ہمیں فراہم کرتے ہیں۔ ہم روایت کو صرف اس لیے تبدیل نہیں کر سکتے کہ کچھ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔‘‘

سینئر پجاری گیانیندر کشور

شرما کے مطابق، دیوتاؤں کے لیے لباس، تاج، اور پیچیدہ ’زردوزی‘ بنانے میں لگ بھگ 80 فیصد کاریگر مسلمان ہیں۔

دنیش شرما نے دعویٰ کیا کہ "بھگوا کے کپڑے پاک ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کو ایسے لوگوں سے نہیں سلایا جانا چاہئے جو گائے اور ہندو مذہب کا احترام نہیں کرتے۔

تاہم، مندر کے پجاریوں نے کہا کہ یہ مطالبہ ناقابل عمل ہے کیونکہ دیگر کمیونٹیز ان لباسوں کو تیار کرنے میں ایک جیسی مہارت نہیں رکھتی ہیں۔

سینئر پجاری گیانیندر کشور نے بتایا کہ یہ مندر 164 سال پرانا ہے۔ ہفتے کے دنوں میں تقریباً 30,000 سے 40,000 عقیدت مند درشن پر آتے ہیں۔ یہ تعداد اتوار اور تعطیلات میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔”ہم پر  بھگوان کے کپڑے بدلتے رہنے کا زبردست دباؤ ہے۔ ہمیں تہواروں کے دوران مورتی کے لیے خصوصی کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسلمان درزی انہیں بغیر کسی رکاوت کے ہمیں فراہم کرتے ہیں۔ ہم روایت کو صرف اس لیے تبدیل نہیں کر سکتے کہ کچھ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی مسلم کمیونٹی کے موسیقار خاص مواقع پر ’نفیری‘ (ایک روایتی ہوا کا آلہ) بجاتے ہیں۔  ایک رپورٹ کے مطابق، انہوں نے زور دے کر کہا، ’’بہت سے ممتاز بھجن گلوکار بھی مسلم کمیونٹی سے آتے ہیں، جو بھگوان کرشن کو اپنی سیوا پیش کرتے ہیں۔

مندر کے ایک اور پجاری، اننت بہاری گوسوامی نے کہا کہ  "مسلمان شروع سے ہی دیوتاؤں  کے لیے 99 فیصد سے زیادہ کپڑے فراہم کرتے رہے ہیں۔ ہم مندر کی روایت اور ثقافت کو ختم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘انہوں نے  کہا  کہ "ایسے مطالبات کرنے والے مسلمانوں کو مالی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن ہم ہر مذہب اور ہر فرد کا احترام کرتے ہیں۔”

شری کرشن جنم بھومی سنگھرش نیاس نے کئی مندروں پر زور دیا ہے، جن میں وارانسی، ایودھیا، سنبھل اور اتر پردیش کے دیگر اضلاع شامل ہیں ۔جہاں مسلمانوں سے خریداری نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ در اصل یہ اقدام بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔