ورلڈ پریس فریڈم ڈے: 2014 کے بعد  سے ملک میں صحافت  حکومت کے ماتحت ہو گئی  ہے

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے کے موقع پر منعقدہ تقریب میں سینئر صحافیوں کاملک کی موجودہ صحافتی صورتحال پر اظہار تشویش

نئی دہلی،05 مئی :۔

صحافت کی آزادی کے عالمی دن کے موقع پر رائٹرس وداؤٹ بارڈرس کی جانب سے شائع رپورٹ میں ملک کی صحافت کی درجہ بندی انتہائی مایوس کن سطح پر رہی ہے۔اس تعلق سے صحافت سے وابستہ تنظیموں اور اداروں کی جانب سے منعقدہ پروگرام میں صحافت کی گرتی ہوئی ساکھ پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اسے پریس کی آزادی کیلئے خطرہ قرار دیا گیا ۔ اسی سلسلے میں  انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں گزشتہ روز آئی آئی سی سی ڈائیلاگز کی پہل کے تحت ہفتہ کی شام ہندوستان میں میڈیا کی حالت پر ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا جس سے ہندوستان کے سینئر اور معروف صحافیوں نے خطاب کیا جو موجودہ دور میں مزاحمت اور متبادل میڈیا کی آواز بن چکے ہیں۔

اس تقریب میں ورلڈ پریس فریڈم ڈے بھی منایا گیا اور پینلسٹس میں دی وائر کے بانی ایڈیٹر سدھارتھ وردراجن، ستیہ ہندی کے شریک بانی آشوتوش اور سینئر صحافی اور مصنف ارملیش شامل تھے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سدھارتھ وردراجن نے کہا، نریندر مودی 2014 میں وزیر اعظم بنے، لیکن وہ 2014 سے پہلے اپنی شبیہ نہیں مٹا سکتے۔سدھارتھ نے کہا، انہوں نے گجرات فسادات کے بعد ایک بین الاقوامی میڈیا کو بتایا تھا کہ گجرات فسادات کے بعد انہیں صرف ایک افسوس تھا کہ وہ میڈیا کو مینیج نہیں کر پا رہے تھے اور اس وقت سے لے کر آج تک وہ میڈیا کو سنبھالنے میں کامیاب رہے ہیں اور یہ بات کسی شک کے بغیر آج واضح طور پر عیاں ہے۔انہوں نے صدیق کپن سمیت کشمیر اور ہندوستان کے مختلف حصوں میں صحافیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کو بھی یاد کیا۔ یہ ریاست کی طرف سے میڈیا پرسنز اور میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنا کر پریس کو ڈرانے کی کارروائی ہے۔

انہوں نے کہا، آج ڈیجیٹل پلیٹ فارم مین اسٹریم میڈیا سے زیادہ دیکھے جا رہے ہیں، جو سماج کو تقسیم کرنے کے لیے صرف نفرت اور ہندو مسلم نفرت کی کہانیاں پھیلاتے ہیں۔

سینئر صحافی آشوتوش نے میڈیا کے اس بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہ ہم امرتکال میں ہیں، کہا کہ ہر جگہ زہر ہے اور ہر ادارے میں نفرت کا زہر ہے۔ اور اس کی واحد وجہ  حکومت ہے۔ 2014 کے بعد جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس کی ذمہ دار حکومت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا ذمہ دار صرف میڈیا کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ ہم عدلیہ میں کیسز کی صورتحال دیکھ سکتے ہیں، بنچوں کو دیکھ کر ہم جان سکتے ہیں کہ فیصلہ کیا ہو گا اور الیکشن کمیشن کو بھی۔ کسی بھی ادارے کا نام لیں اور آپ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ 2014 سے پہلے اور اب کیا صورتحال ہے۔

انہوں نے استدلال کیا کہ یہ فرق کیوں ہے، کیونکہ حکومتیں پہلے بھی بدل چکی ہیں؟ ہمارے پاس اٹل بہاری واجپئی، ایچ ڈی۔ دیوے گوڑا، آئی کے  گجرال کا دور دیکھا ہے لیکن منموہن سنگھ کے بعد نریندر مودی کے اقتدار میں آنے سے کیا بدلا؟ جو بنیادی تبدیلی رونما ہوئی وہ یہ تھی کہ اقتدار کی منتقلی کوئی عام تبدیلی نہیں تھی بلکہ 1947 کی طرح کی منتقلی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس عمل میں منموہن سنگھ سے نریندر مودی کو اقتدار کی منتقلی کے بعدحکومت کی نوعیت بدل گئی، جس کا مطلب ہندوتوا کا غلبہ اور ہندو راشٹرا کا نظریہ تھا۔سینئر صحافی ارملیش نے ورلڈ پریس فریڈم ڈے کے موقع پر میڈیا فریڈم انڈیکس کے بارے میں یاد دلاتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ میڈیا کی آزادی اور جمہوریت دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جمہوریت جتنی مضبوط ہوگی میڈیا کی آزادی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ انہوں نے ہماری جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے انفرادی طور پر چلنے والے چھوٹے میڈیا پلیٹ فارمز کی حمایت کرنے پر بھی زور دیا۔پروگرام کی نظامت سینئر صحافی اور مصنفہ صبا نقوی اور بی بی سی کے سینئر صحافی اقبال احمد نے کی۔

(بشکریہ:انڈیا ٹو مارو)