ودیشا:یہ مندر نہیں مسجدہے ،اے ایس آئی  کے بیان سے  ہندوؤں میں ناراضگی

ناگ پنچمی پر اندر داخل ہو کر پوجا کرنے کی اجازت مانگی گئی تھی ،اے ایس آئی نے 1951 کے گزٹ کا حوالہ دے کر مسجد قرار دیا

نئی دہلی ،10 اگست :

مدھیہ پردیش  میں  مسجد کمال مولا-بھوج شالہ تنازعہ ابھی جاری ہے،اے ایس آئی سروے ابھی مکمل نہیں ہوا ہے کہ مدھیہ پردیش میں ایک نیا تنازع شروع ہو گیاہے۔یہ نیا تنازعہ ودیشا میں واقع سوریہ مندر کے تعلق سے ہے۔ اے ایس آئی نے اس مندر کو مسجد قرار دیا ہے۔ یہ بیان سامنے آنے کے بعد ہندوؤں میں شدید ناراضگی پھیل گئی ہے۔خیال رہے کہ اس وجے سوریہ مندر میں ہر سال ہندو ناگ پنچمی پر پوجا کرتے ہیں اور یہ پوجا ہندو مندر کے باہر سے ہی کرتے ہیں۔ اس سال گزشتہ 9 اگست کو  انہوں نے مندر کے اندر پوجا کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔اور کلکٹر کو ایک میمو رینڈم دیا تھا۔ جس پر کلکٹربدیش کمار ویدیہ نے   میمو رینڈم  اے ایس آئی کو  بھیج دیا  تھا۔کیونکہ یہ عمارت اے ایس آئی کی نگرانی میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق  ودیشا میں واقع وجئے سوریہ مندر کو آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا نے 1951 کے گزٹ نوٹیفکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے بیجا منڈل مسجد قرار دے دیا ہے۔ اے ایس آئی کے اس خط کے بعد ہندو تنظیمیں مشتعل  ہوگئی ہیں اور اس سلسلے میں وجئے مندر مکتی سیوا سمیتی کے اراکین نے کلکٹر کو عرضداشت سونپتے ہوئے بیجامنڈل کو مسجد بتائے جانے پر سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وجئے مندر مکتی سیوا سمیتی کے اراکین کے ذریعہ رکن  اسمبلی مکیش ٹنڈن کی قیادت میں کلکٹریٹ پہنچ کر ڈی ایم اور ایس پی کے نام اس معاملے پرعرضداشت سونپی گئی اور مرکزی حکومت کو خط لکھ کر اس مقام کا دوبارہ سروے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

دوسری طرف ڈی ایم کا کہنا ہے کہ جو اے ایس آئی کے دستاویزوں میں بتایا گیا تھا، اسی کو انہوں نے اپنے خط میں لکھاہے۔ ناگ پنچمی پر پوجا کو لے کر جو روایت اور عوامی جذبات پہلے سے چلے آرہے ہیں اسی کو پورا کیا جا رہا ہے۔یہ عمارت اے ایس آئی کی نگرانی میں ہے اس لئے ہم نے میمو رینڈم اے ایس آئی کو بھیج دی ۔اب اے ایس آئی نے اسے مسجد قرار دیاہے ۔

واضح ہو کہ دہائیوں سے ہندو عقیدت مند ناگ پنچمی پر اس مقام کے باہر مذہبی رسومات کی ادائیگی کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں کچھ تنظیموں نے احاطے میں داخلہ اور پوجا کرنے کی اجازت مانگی جس پر ضلع مجسٹریٹ نے لوگوں کے مطالبہ سے جڑے خط کو اے ایس آئی کے پاس بھیج دیا۔ اس کے بعد اے ایس آئی نے خط کا جو جواب دیا، اس سے تنازعہ پیدا ہوگیا۔ اے ایس آئی نے 1951 کے گزٹ نوٹیفکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے اس مقام کو بیجا ‘منڈل مسجد’ کی شکل میں درجہ بندی کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ودیشا میں مسلم سوسائٹی کے کارگزار صدر چودھری پرویز احمد نے اس دوران کہا، ”مسلم برادری کافی عرصے سے بیجامنڈل عیدگاہ مسجد میں نماز ادا کر رہی ہے۔ 1965 میں ایک معاہدہ ہوا تھا اور ہم اس پر قائم ہیں۔ عیدگاہ مسجد حکومت نے بنوائی تھی اور زمین خرید کر  ہمارے حوالے کی گئی تھی۔