نوح میں حکومت کی یکطرفہ انہدامی کارروائی پر ازخود نوٹس لینے والی پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی بنچ تبدیل
معاملے کی سماعت پر دوسری بینچ کرے گی ،پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ہریانہ حکومت پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے سوال اٹھائے تھے
نئی دہلی ،11اگست :۔
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی بنچ نے 7 اگست کو نوح اور گروگرام میں تشدد کے بعد حکومت کی جانب سے کی جا رہی مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائیوں کا از خود نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے نوح میں لوگوں کے گھروں پر کیے جانے والے بلڈوزر ایکشن پر پابندی عائد کر دی تھی۔عدالت کے اس اقدام سے ہزاروں غریب اور مزدور افراد نے راحت کی سانس لی تھی لیکن اچانک بینچ کی تبدیلی سے مایوسی کااظہار کیا جا رہا ہے ۔
عدالت نے ہریانہ حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا ریاست نسلی تطہیر (ایتھنک کلینزنگ) کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اب یہ بنچ اس معاملہ کی سماعت نہیں کر سے گی کیونکہ معاملہ کسی دوسری بنچ کو منتقل کر دیا گیا ہے۔
لائیو لا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کی یہ بنچ 10 اگست کی رات کو تبدیل کی گئی۔ بنچ ایک دن بعد 11 اگست یعنی آج ہی اس معاملے کی دوبارہ سماعت کرنے جا رہی تھی۔ اس سے پہلے ہی بنچ تبدیل کر دی گئی۔ یہ بنچ جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور جسٹس ہرپریت کور جیون پر مشتمل تھی، جبکہ اب اس معاملہ کو جسٹس ارون پلی اور جسٹس جگ موہن بنسل کی بنچ کے سپرد کر دیا گیا ہے۔
جسٹس جی ایس سندھاوالیا اور جسٹس ہرپریت کور جیون کی بنچ نے ہریانہ حکومت سے پوچھا تھا کہ جن عمارتوں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کیا جا رہا ہے کیا وہ کسی خاص برادری کی ہیں؟ کیا حکومت نظم و نسق کی آڑ میں ایسا کر رہی ہے؟ ہائی کورٹ نے ہریانہ حکومت کو نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ’’مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا نظم و نسق کی آڑ میں ایک مخصوص برادری کی عمارتوں کو مسمار کیا جا رہا ہے؟ اور کیا ریاستی حکومت نسلی تطہیر کی کوشش کر رہی ہے؟‘‘
عدالت ہریانہ کے وزیر داخلہ انیل وج کے اس بیان پر تبصرہ کر رہی تھی، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاستی حکومت فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات کر رہی ہے اور بلڈوزر ‘علاج’ کا حصہ ہے۔ عدالت نے ہریانہ حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس میں اسے بتانا تھا کہ اس نے نوح اور گروگرام میں گزشتہ دو ہفتوں میں کتنی عمارتیں منہدم کی ہیں اور کیا اس سے پہلے مالکان کو کوئی نوٹس دیا گیا تھا؟ خیال رہے کہ نوح میں 31 جولائی کو وشو ہندو پریشد کی برج منڈل جل ابھیشیک یاترا کے دوران فرقہ وارانہ تشدد ہوا تھا، جس میں 6 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔جس کے بعد ہریانہ کی کھٹر حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف یکطرہ انہدامی کارروائی شروع کی گئی اور ہزاروں افراد کے مکان ،دکان اور فیکٹریوں پر بلڈوزر چلا کر منہدم کر دیا گیا۔اس دوران سرکار نے اس اندھا دھند طریقے سے کارروائی کی کہ خود کے سرکاری منصوبوں سے تعمیر مکانات پر بھی بلڈوزر چلا دیا گیا۔