نوح :فرقہ وارانہ فساد کے بعد غیر مقیم مسلم مزدوروں میں خوف و ہراس، نوح-گروگرام سے آبائی مقامات پر منتقل
فیکٹریوں اور صنعتوں میں بحران کا خدشہ ،ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لئے بڑے نقصان کا امکان
نئی دہلی ،12اگست :۔
ہریانہ کے نوح اور گروگرام میں حالیہ فرقہ وارانہ فسادات کے بعد جہاں ایک طرف مقامی مسلمانوں میں خوف و ہراس کا عالم ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مردوں اور خواتین کے علاوہ نابالغ بچوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف علاقے کی متعدد فیکٹریوں اور صنعتوں میں زیر ملازم اور مزدور کے طور پر کام کرنے والے ہزاروں غیر مقیم مسلم مزدوروں میں بھی خوف اور دہشت پھیلی ہوئی ہے ۔جس کا اثر یہ ہے کہ بڑی تعداد میں غیر مقیم اور تارکین وطن مزدورو اپنے آبائی ریاستوں کو لوٹ رہے ہیں ۔جس سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گرو گرام اور نوح میں واقع فیکٹریوں اور صنعتوں کو زبر دست نقصان پہنچے گا۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل کمپنیوں پر بحران کے بادل چھانے لگے ہیں ۔
نوح کے روزکا میو صنعتی علاقے اور سیکٹر-37، کھنڈسا، قاضی پور، مانیسر اور گروگرام کے آئی ایم ٹی سوہنا سے بڑے پیمانے پر مسلم کاریگر اپنے آبائی وطن واپس لوٹ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ مسلم اکثریتی شہر نوح میں وشو ہندو پریشد نے برج منڈل یاترا نکالی تھی، جس کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ اس کے بعد قدامت پسند ہندو تنظیموں کی قیادت میں ہجوم نے پتھراؤ کیا۔ مسلمانوں کی متعدد دکانوں کو نذر آتش کر دیا، کارکنوں کو دھمکیاں دی گئیں اور مارا پیٹا گیا۔باقاعدہ ہندو شدت پسند تنظیموں میں مہا پنچایت کا انعقاد کر کے عوامی طور پر مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے ۔ یہی نہیں فیکٹری اور دکان مالکان کومسلمانوں کو دکان اور مکان دینے والوں کو دھمکی دی گئی ہے اور انہیں غدار قرار دیا گیا ہے ۔
تشدد نے نوح، گروگرام اور سوہنا میں ٹیکسٹائل کی صنعتوں میں کام کرنے والے مسلمان تارکین وطن کارکنوں میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پیدا کر دیا۔ تشدد اور فرقہ وارانہ فسادات کے بعد یکم اگست کو گرو گرام میں کام کرنے والے بہار ،جھارکھنڈ ،چھتیس گڑھ، اور مغربی بنگال کے مزدور اپنے معمولی سامان اور بیوی بچوں کے ساتھ اپنے اپنے آبائی وطن کی طرف لوٹنے لگے ۔
رپورٹ کے مطابق انڈسٹریل ایسوسی ایشن سیکٹر-37 کے صدر کے کے گاندھی نے بتایا ’’گروگرام کے مسلم کاریگر تشدد اور خوف کے درمیان یہاں سے واپس لوٹ رہے ہیں۔ اگرچہ، ان کاریگروں کو گروگرام میں نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ کسی نے انہیں دھمکی بھی نہیں دی ہے کیونکہ وہ کپڑے کے کارخانوں میں کام کرتے تھے، سیلون، گوشت یا اسکریپ جیسی کھلی دکانوں میں نہیں۔ وہ خوف کی وجہ سے اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ گئے جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری (کپڑے کی صنعت) کی پیداوار متاثر ہوئی ہے۔
گاندھی نے کہا کہ سردیوں کا موسم چند ماہ دور ہے اور یہ گرم کپڑوں کی تیاری کا بہترین وقت ہے۔ یہ تشدد ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے یقیناً ایک بڑا نقصان ثابت ہوگا۔ بہار سے تعلق رکھنے والے ایک ادھیڑ عمر کے کاریگر بابو جھا نے جو گروگرام میں ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتے تھے، کہا ’’ہم جا رہے ہیں، ہم اب یہاں محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں پولیس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ "ہم نے اپنے مالکان کو بتایا ہے کہ سکیورٹی گارڈز کی موجودگی کے باوجود، ہم اب خود کو محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، آئی ایم ٹی مانیسر انڈسٹریل ایسوسی ایشن نے تشدد کی مذمت کی ہے۔ آئی ایم ٹی مانیسر انڈسٹریل ایسوسی ایشن کے صدر اتل مکھی نے کہا، "ہم کارکنوں کے مذہب پر توجہ نہیں دیتے۔ ہم نے کارکنوں کو ان کے کام کے معیار اور مہارت کے مطابق رکھا ہے اور کام کرتے وقت ہم مذہب کو نہیں دیکھتے۔ ہم نوح اور گروگرام میں تشدد کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ دونوں اضلاع میں سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے اور عہدیدار باقی مزدوروں میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، تارکین وطن کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔ متعدد مزدوروں نے کہا کہ ہم گرو گرام چھوڑ کر اپنے آبائی وطن واپس لوٹ رہے ہیں ،کیونکہ ہمیں یہاں دھمکیاں دی گئی ہیں،اب ہم یہاں محفوظ محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق میوات چیمبر آف کامرس ایسوسی ایشن کے صدر آر ایس کھٹانہ نے کہا کہ ’’روزکا میو میں تقریباً 30 سے 40 ٹیکسٹائل، ڈائینگ یونٹس اور آٹو پارٹ یونٹ چل رہے ہیں لیکن حالیہ جھڑپوں کی وجہ سے ہندو اور مسلم کارکن کام پر نہیں آ رہے ہیں۔ اگرچہ انہیں کسی نے نشانہ نہیں بنایا خوف کی وجہ سے وہ اتر پردیش اور بہار میں اپنے آبائی مقامات کو لوٹ گئے ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں تشدد کے بعد متعدد ہندو شدت پسند تنظیموں کے ذریعہ مسلمانوں کا بائکاٹ کرنے کی اپیل کی گئی ہے جس پر سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی ۔سپریم کورٹ نے عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اس طرح کی بائیکاٹ کو کسی بھی طرح نا قابل قبول قرار دیا ہے ۔