نوح تشدد کے بعد متاثرہ مساجد کی مرمت کے لئے جمعیۃ علمائے ہند سر گرم

جمعیۃ علمائے ہند کے وفد نے علاقے میں تباہ شدہ مساجد کا سروے کیا،متعدد تباہ شدہ مساجد میں مرمت کا کام بڑے پیمانے پر شروع

نئی دہلی،17اگست :

ہریانہ کے نوح اور میوات میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کے دوران  جہاں بڑی تعداد میں دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کیا گیا اور مسلمانوں کی فیکٹریوں کو تباہ کیا گیا وہیں درجنوں مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا اور انہیں نذر آتش  کیا گیا اور توڑ پھوڑ کے ذریعہ نقصان پہنچایا گیا ہے۔فساد کے بعد اب ملی تنظیمیں علاقے میں سر گرم ہیں اور ایسی عبادت گاہوں کی مرمت کا کام شروع ہو گیا ہے جنہیں شر پسندوں نے نقصان پہنچایا ہے ۔

31 جولائی کو ہوئے تشدد کے بعد، جمعیۃ علماء ہند (جے یو ایچ) کی مختلف ٹیمیں میوات کے مختلف علاقوں میں راحت کے کاموں میں مصروف ہیں۔ جمعیۃ علمائے ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر  جمعیۃ کی ٹیموں نے میوات کا دورہ کیا۔سروے اور قانونی کارروائی کے لیے ریلیف کمیٹی، لیگل سیل اور سروے کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے۔

جہاں کچھ ٹیمیں فسادات میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگا رہی ہیں وہیں دوسری ٹیمیں ریاستی حکومت کی ہدایات پر منہدم کیے گئے مکانات اور دکانوں اور اس سے ہونے والے نقصانات کا سروے کر رہی ہیں۔اس علاقے میں کل 14 مساجد پر شرپسندوں نے حملہ کیا جن میں سے ایک مسجد مکمل طور پر جل گئی جبکہ 13 مساجد کو جزوی نقصان پہنچاہے۔

جلائے گئے مذہبی مقامات، درگاہوں، گھروں اور دکانوں کی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے۔ ان گھروں اور دکانوں کی فہرست بھی تیار کی جا رہی ہے جہاں ریاستی حکومت کے حکم پر بلڈوزر چلائے گئے تھے۔اس سلسلے میں جمعیۃ علمائے ہند (راجستھان) کے جنرل سکریٹری مولانا راشد قاسمی کی قیادت میں جمعیۃ کی ایک سروے کمیٹی اور ریلیف ٹیم نے 13 اگست کو پلول ضلع میں حالیہ جھڑپوں سے متاثرہ دو مساجد کا سروے کیا۔

پلول ضلع کی ہوڈل تحصیل کے گاؤں حسن پور میں واقع مسجد کو جزوی نقصان پہنچا۔ مسجد کے امام مولانا لقمان قاسمی کی نگرانی میں امدادی ٹیم نے مسجد کی مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔

ٹیموں نے قریبی گاؤں رسول پور، تحصیل ہوڈل، ضلع پلو ل میں ایک اور مسجد کا بھی سروے کیا، جسے بری طرح نقصان پہنچا تھا۔

مسجد کے امام کے کمرے کو آگ لگا دی گئی، مسجد کی اندرونی اور بیرونی دیواریں ٹوٹ گئیں اور مذہبی کتابیں بھی جل گئیں۔ ٹیم نے پایا کہ گاؤں میں کوئی مسلمان گھرانہ نہیں ہے اس لیے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے مسجد کی مرمت کا کام فوری طور پر شروع نہیں کیا جا سکتا۔ صورتحال معمول پر آتے ہی مرمت کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ مسجد کو تقریباً تین لاکھ روپے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

14 اگست کو جمعیۃ کی ٹیم نے جامع مسجد، کچا بازار، تحصیل تورو، ضلع نوح کا بھی معائنہ کیا۔ بتادیں کہ جب سے ہنگامہ شروع ہوا تھا، مقامی انتظامیہ اور پولیس افسران کسی کو بھی اس مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ چنانچہ ٹیموں نے وہاں کے ڈی ایس پی سے ملاقات کی۔

جمعیۃ کے وفد کی کوششوں سے یہاں  متعدد مساجد میں باقاعدہ نماز پڑھنے کی اجازت بھی مل گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ فسادات کے بعد پولیس اور انتظامیہ نے لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا۔

وفد نے اس گھناؤنے اور غیر انسانی فعل پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔  قابل ذکر بات یہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند اس مجرمانہ فعل سے ہونے والے نقصان کے ازالے اور بحالی کے لیے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں مقدمہ بھی دائر کرنے جارہی ہے۔