نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے لئے بس روکنے کے الزام میں برطرف بس کنڈکٹر کی خود کشی
نئی دہلی ،30 اگست :۔
گزشتہ 3 جون کو یو پی کی ریاستی حکومت کی ٹرانسپورٹ کنڈکٹر دو مسلمان مسافروں کو گاڑی روک کو دو منٹ کے لئے نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے الزام میں ڈرائیور کے ساتھ معطل 32 سالہ موہت یادو نے خود کشی کر لی ۔بتایا جا رہا ہے کہ وہ نوکری جانے کے بعد اقتصادی تنگی سے پریشان تھا۔گزارہ کے لئے اس کے پاس کچھ ذریعہ نہیں تھا۔تمام کوششوں کے باوجود اس کی معطلی واپس لینے کی امیدیں ختم ہو گئی تھی اس لئے اس نے خود کشی کر لی۔
27 اگست کو لاپتہ ہونے والے یادو نے مین پوری میں چلتی ٹرین کے سامنے چھلانگ لگا کر خود کو ہلاک کر لیا۔ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اگلی صبح اس کی لاش اس کے گھر کے قریب ریلوے پٹری پر ملی۔یادو مین پوری میں گھیرور پولیس کے تحت آنے والے ناگلہ خوشحالی کا رہنے والا تھا۔
وہ یو پی ایس آر ٹی سی میں آٹھ سال سے زائد عرصے سے کنٹریکٹ ورکر کے طور پر ملازم تھا، جس کی ماہانہ تنخواہ تقریباً 17,000 روپے تھی۔
یادو اور ڈرائیور کے پی سنگھ نے مبینہ طور پر تین ماہ قبل دہلی جانے والے بریلی-دہلی قومی شاہراہ پر دو مسلمان مسافروں کو گاڑی کو دو منٹ کے لیے روک کر نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی۔ ان دونوں کو واقعے کے دو دن بعد 5 جون کو "فوری اثر” کے ساتھ معطل کر دیا گیا تھا۔
ڈرائیور کے مطابق، بس کچھ مسافروں کو بیت الخلا کی اجازت دینے کے لیے رکی تھی اور جب دو مسلمان مسافروں نے ’نماز‘ پڑھنے کی خواہش ظاہر کی ڈرائیور نے انہیں بھی اجازت دے دی۔
یادو کے دوست کا حوالہ سے ٹائمز آف انڈیا نے بتایا کہ، "اس کے پاس پیسے نہیں تھے اور وہ اپنا گزارہ پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔
یاد و کے دوست نے بتایا کہ”ہم ایک ساتھ کام کرتے تھے۔ اتوار کی رات جب اس نے مجھے فون کیا تو اس کے پاس فون ری چارج کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ اپیل دائر کرنے کے باوجود نوکری واپس ملنے کی کوئی امید نہیں تھی،‘‘