نفرت اور تقسیم کرنے والے بیانوں سے سیاستداں گریز کریں

 سپریم کورٹ کے جج  جسٹس  پرشانت کمار مشرا نےنفرت انگیز بیان بازی کوقومی اتحاد کے لئے نقصاندہ قرار دیا

نئی دہلی ،29 دسمبر :۔

ملک میں سیاست دانوں کے ذریعہ مذہبی بنیاد پر تفریق اور نفرت پر مبنی بیانات اور تقاریر کے بڑھتے معاملوں پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس پرشانت کمار مشرا نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔جسٹس مشرا نے تشویش  کرتے ہوئے  نفرت انگیز بیانات کو  بھائی چارے، باہمی  ہم آہنگی اور آئینی نظریات کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی قرار دیا ۔

جسٹس مشرا گجرات کے وڈتل میں آل انڈیا ایڈوکیٹس کونسل (اے بی اے پی) کی نیشنل کونسل میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔  انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بیان بازی سے ہندوستانی آئین میں مذکور اتحاد کی روح کمزور پڑتی ہے۔

جسٹس مشرا نے متنبہ کیا کہ شناخت کی سیاست، جسے اکثر سیاست داں ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، سماجی تقسیم کو گہرا کرتی ہے، جس سے انتشار امتیاز اور تنازعہ پیدا ہوتا ہے۔  انہوں نے بھائی چارے کو ایک متحد دھاگے کے طور پر بیان کیا جو ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کے اندر آزادی، مساوات اور انصاف کے نظریات کو جوڑتا ہے۔  انہوں نے کہا کہ بھائی چارے کے بغیر یہ نظریات ایسے ہی کمزور رہتے ہیں جس طرح تپائی کا ایک پاؤں غائب ہو جاتا ہے۔جسٹس پرشانت کمار مشرا نے تفرقہ انگیز نظریات، معاشی عدم مساوات اور سماجی ناانصافی سے لاحق خطرات کی تفصیل سے وضاحت کی۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسائل بھائی چارے کے جذبے کو کمزور کرتے ہیں جسے شہریوں، اداروں اور رہنماؤں کو یکساں طور پر برقرار رکھنا چاہیے۔  جسٹس مشرا نے نفرت انگیز تقریر، غلط معلومات اور تفرقہ انگیز مواد پھیلانے میں ڈیجیٹل ٹکنالوجی اور سوشل میڈیا کے مؤثر کردار پر روشنی ڈالی، اور بتایا کہ کس طرح  سماجی تناؤ اور برادریوں کے درمیان عدم اعتماد  میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ تفرقہ انگیز بیان بازی سے بداعتمادی پیدا ہوتی ہے، جو دقیانوسی تصورات اور غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہے۔  انہوں نے کہا کہ جب سیاسی رہنما سماجی شناخت کو انتخابی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اس سے تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے جس سے اجتماعیت کا احساس پیدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔