’’نفرت انگیز تقریر کی شکایت نہ ہونے کے باوجود خود ہی مقدمہ درج کریں‘‘عدالت عظمیٰ کا تمام ریاستوں کو حکم

سماعت کے دوران جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر قوم کے تانے بانے کو متاثر کرنے والا سنگین جرم ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے دل اور لوگوں کے وقار کو متاثر کرتا ہے۔

نئی دہلی28 اپریل :۔

نفرت انگیز تقریر  معاملے  میں جمعہ کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے تمام ریاستوں/ مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو حکم دیا ہے کہ وہ نفرت انگیز تقریر کے خلاف از خود کارروائی کریں۔ عدالت نے اپنے 2022 کے حکم کو تمام ریاستوں/مرکز کے زیر انتظام علاقوں تک بڑھا دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ہندوستان کے سیکولر کردار کو برقرار رکھنے کے لیے، غلطیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں  ۔عدالت نے کہا کہ تقریر کرنے والے کے مذہب سے قطع نظر کارروائی  کی جائے ۔ عدالت نے متنبہ کیا کہ ہدایات کے مطابق کام کرنے میں کسی بھی ہچکچاہٹ کو توہین عدالت کے طور پر دیکھا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ یہ واضح کرتی ہے کہ ہندوستان کے سیکولر کردار جیسا کہ آئین کے دیباچے میں تصورپیش کیا گیا ہے، کو محفوظ  رکھا جا سکے ، اس کے  لیے فوری کارروائی کی جانی چاہیے

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے یہ حکم صرف یوپی، دہلی اور اتراکھنڈ حکومتوں کو دیا تھا۔ اب یہ حکم تمام ریاستوں کو دے دیا گیا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر قوم کے تانے بانے کو متاثر کرنے والا سنگین جرم ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے دل اور لوگوں کے وقار کو متاثر کرتا ہے۔

نفرت انگیز تقریر کیس میں پہلے کی سماعت میں، سپریم کورٹ نے کہاکہ”نفرت  انگیز تقریر پر اتفاق رائے بڑھ رہا ہے اور ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت پر مبنی جرائم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔” عدالت نے کہا کہ نفرت انگیز تقریر پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر ریاست نفرت انگیز تقاریر کے مسئلے پر از خود کارروائی  کرے تو ہی اس کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپنے شہریوں کو ایسے کسی بھی گھناؤنے جرم سے بچانا ریاست کا بنیادی فرض ہے۔

تمام ریاستوں کوازخود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کی ہدایت دیتے ہوئے عدالت نے کہا، ’’ عدالت عظمیٰ یہ واضح کرتی ہے کہ ہندوستان کے سیکولر کردار جیسا کہ آئین کے دیباچے میں تصورپیش کیا گیا ہے، کو محفوظ  رکھا جا سکے ، اس کے  لیے فوری کارروائی کی جانی چاہیے۔‘‘