نصابی کتابوں سے تاج محل کی تعمیر سے متعلق مواد ہٹانے کا مطالبہ
ہندو سینا کا دعویٰ ،تاج محل در اصل راجہ مان سنگھ کا محل تھا،دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کےدرست تاریخ پڑھانے کا مطالبہ، ہائی کورٹ نے کہا کہ اے ایس آئی اس پر غور کرے
نئی دہلی، 3 نومبر:
ملک میں بی جے پی کی حکومت کی آمد کے بعد دائیں بازوں کی شدت پسند نظریات کی حامل جماعتوں کی جانب سے ملک کی تاریخ کو تبدیل کرنے کا مطالبہ زرو پکڑ چکا ہے ۔خاص طور پر ملک کی تاریخ سے مغلوں کے ذریعہ کئے گئے تعمیری خدمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔گزشتہ کچھ ماہ میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں ،اسکول کے نصابوں میں بھی متعدد ابواب کو حذف کر دیا گیا ہے ۔دریں اثنا عالمی ورثہ تاج محل کے سلسلے میں دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے متعدد مفروضات بیان کئے جاتے رہے ہیں ، تاج محل کو تیجو محالیہ کہہ کر مغلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اب ہندو سینا نے ایک نیا شگوفہ چھوڑتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کر کے نصابی کتابوں میں تاج محل کی تعمیر کے تعلق سے مواد کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔
اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ نے اسکولوں اور کالجوں کی تاریخ کی کتابوں سے شاہجہاں کے تاج محل کی تعمیر سے متعلق مبینہ غلط تاریخی حقائق کوہٹانے کے مطالبے پر سماعت کرتے ہوئے اے ایس آئی کو اس پر غور کرنے کی ہدایت دی۔ چیف جسٹس ستیش چندر شرما کی صدارت والی بنچ نے یہ ہدایت دی۔
ہندو سینا کے صدر سرجیت سنگھ یادو نے درخواست دائر کی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے وکیل ششی رنجن کمار سنگھ اور مہیش کمار نے درخواست میں کہا کہ تاج محل راجہ مان سنگھ کا محل تھا جس کی تزئین و آرائش مغل بادشاہ شاہ جہاں نے کی تھی۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا کہ اس کی تحقیقات کے لیے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو رہنما خطوط جاری کیے جائیں اور لوگوں کو تاریخ کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کی جائیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ درخواست گزار نے یہ جاننے کے لیے کئی کتابوں سے رجوع کیا۔ ایک کتاب میں ذکر ہے کہ عالیہ بیگم شاہجہاں کی بیوی تھیں۔ اس کتاب میں ممتاز محل کا بطور بیوی کوئی ذکر نہیں ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ مرکزی حکومت، آرکائیوز آف انڈیا اور حکومت اتر پردیش کو تاریخ کی کتابوں میں صحیح حقائق شامل کرنے کی ہدایات دی جائیں۔