نجیب کہاں ہے؟ایک ماں کا بیٹے کے انصاف کیلئے آخری سانس تک لڑنے کا عزم
عدالت کے ذریعہ 9 سال سے لاپتہ جے این یو طالب علم نجیب کی کلوزر رپورٹ قبول کرنے پر ماں کا شدید رد عمل،دہلی پولیس اور سی بی آئی پر لاپروائی کا الزام

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،یکم جولائی:۔
ملک کی راجدھانی دہلی میں واقع عالمی شہرت یافتہ اور باوقار یونیور سٹی میں زیر تعلیم ایک طالب علم نجیب کی گمشدگی کو آ ج نو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ۔نجیب کہاں ہے؟ یہ سوال گزشتہ نو سال سے ایک ماں دردر بھٹک رہی ہے مگر اس کا جواب نہ دہلی پولیس کے پاس ہے اور نہ سی بی آئی کو ملا اور بلآخر دہلی کی راؤز اوینیو کورٹ نے بھی سی بی آئی کے ذریعہ داخل کیا گیا کلوزر رپوٹ کو قبول کرتے ہوئے کیس بند کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ سی بی آئی نے 2018 میں کلوزر رپورٹ داخل کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ نجیب کی تلاش میں کوئی ٹھوس سراغ نہیں مل سکا۔گزشتہ روز پیر کو عدالت نے قبول کر لیا ہے ۔
عدالت کے ذریعہ سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کرنے اور کیس بند کرنے کی اجازت دینے پر نجیب کا ماں کا انتہائی درد انگیز اور شدید رد عمل سامنے آیاہے ۔نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نفیس نے منگل کو سی بی آئی اور دہلی پولیس پر اپنے بیٹے کے معاملے میں "لاپرواہی” کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ انصاف کے حصول کے لیے سپریم کورٹ جانا پڑا تو پیچھے نہیں ہٹیں گی۔نہوں نے کہا کہ میں اپنے بیٹے کے انصاف کیلئے آخری سانس تک لڑوں گی۔
نجیب کی والدہ کے مطابق میرے نجیب کو غائب ہوئے 9 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔ لیکن دہلی پولس اور سی بی آئی نے پہلے دن سے جس لاپرواہی کے ساتھ کام کیا اسی کا نتیجہ ہے کہ آج عدالت نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کر لیا۔آج تک نہ تو دہلی پولیس اور نہ ہی سی بی آئی ان اے بی وی پی طلباء کو گرفتار کر سکی ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکی ہے جنہوں نے میرے بیٹے پر حملہ کیا اور پھر اسے غائب کر دیا۔
یہ لڑائی صرف میرے بیٹے کی نہیں بلکہ ہر اس ماں کی ہے جو اپنے بچے کے لیے انصاف چاہتی ہے۔ اگر مجھے اس کے لیے ملک کی سپریم کورٹ جانا پڑا تو میں وہاں بھی جاؤں گی۔
برسوں سے میرے بیٹے کے بارے میں افواہیں اور جھوٹ پھیلائے جاتے رہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ان کو تمام ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ہٹا دیا گیا تھا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اتنی بڑی تحقیقاتی ایجنسیاں اور پورا نظام انصاف آج تک مجھے یہ نہیں بتا سکا کہ میرا نجیب کہاں ہے۔
اس پورے وقت کے دوران جب نظام نے ہمیں خاموش کرنے کی کوشش کی تو جے این یو کے طلباء اور ملک بھر کے طلباء نے اے ایم یو، جامعہ جیسے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں سے میرا ساتھ دیا۔ انہی بچوں نے سڑکوں پر لاٹھی چارج کا سامنا کیا، ہمارے لیے آواز اٹھائی- یہ حمایت اور یہ لڑائی مجھے ہمت دیتی ہے۔
بعض اوقات، مجھے لگتا ہے کہ میں امید کیسے چھوڑ سکتی ہوں؟ میں یہ ہمت کیسے ٹوٹنے دوں؟ آخر وہ میرا بیٹا ہے۔ میں اپنا بیٹا چاہتی ہوں۔ اگر مجھے اس کے لیے ملک کی ہر عدالت میں جانا پڑا تو میں جاؤں گی۔ آخری سانس تک لڑوں گی۔
مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید لوگ میرے ساتھ شامل ہوں گے۔ یہ لڑائی صرف میرے بیٹے کی نہیں بلکہ ہر اس ماں کی ہے جو اپنے بچے کے لیے انصاف چاہتی ہے۔ اگر مجھے اس کے لیے ملک کی سپریم کورٹ جانا پڑا تو میں وہاں بھی جاؤں گی۔
2016 میں کیا ہواتھا؟
نجیب کی ماں فاطمہ نفیس کے مطابق، ان کا بیٹا سمسٹر کے وقفے کے بعد 13 اکتوبر 2016 کو جے این یو واپس آیا۔ 15 اکتوبر کی رات اس نے انہیں فون کیا اور کہا کہ کچھ غلط ہوا ہے۔ پولیس کو اپنی شکایت میں، نہوں نے بتایا کہ نجیب احمد کے روم میٹ قاسم نے انہیں بتایا کہ نجیب کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور اسے چوٹ لگی تھی۔
فاطمہ اگلے دن اپنے بیٹے سے ملنے اتر پردیش کے بلند شہر سے دہلی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس سے فون پر بات کی اور اسے اپنے ہاسٹل میں انتظار کرنے کو کہا۔ لیکن جب وہ ماہی مانڈوی ہاسٹل کے کمرہ نمبر 106 میں پہنچیں تو نجیب احمد وہاں نہیں تھا۔ تب سے وہ لاپتہ ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اے بی وی پی کے کچھ کارکن اس کے کمرے میں آئے تھے اور انہوں نے اس سے چندہ کا مطالبہ کیا تھا جس پر بحث کے بعد نجیب احمد اور اے بی وی پی کے کارکنان کے درمیان تنازعہ ہوا تھا۔