نامساعدحالات کے باوجوداسلام دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب

دنیا بھر میں مسلم آبادی میں  21 فیصد اضافہ،پیو ریسرچ سینٹر کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف،دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 200 لرورڑ تک پہنچ گئی

نئی دہلی ،11 جون :۔

دنیا بھر میں مسلمان اور اسلام کے خلاف جاری ریشہ دوانیوں کے درمیان اسلام تیزی سے دنیا بھر میں مقبول ہو رہا ہے اور اسلام کی وسعت میں اضافہ ہو رہاہے ۔معروف غیر سرکاری تنظیم پیو(PEW) ریسرچ سینٹر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے  پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔ ساتھ ہی یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروپ بھی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2010ء سے2020ء کے درمیان مسلم آبادی میں21؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے یعنی  دنیا میں مسلمانوں کی آ بادی 170؍ کروڑ   سے بڑھ کر 200کروڑ  (دو ارب) تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق  یہ اضافہ عالمی اوسط آبادی میں اضافہ  سے د وگنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اب دنیا  کے چار میں سے  ایک شخص مسلمان ہے یعنی مسلمانوں کی پوری دنیا کی آبادی میں ۲۶؍ فیصد عالمی حصہ داری ہے۔ دوسری طرف غیر مسلموں کی آبادی میں بھی ۹ء۷؍فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا ہے لیکن اس میں ہندوؤں کی آبادی میں ایک  فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔2010ء میں دنیا میں ہندوؤں کی آبادی 15؍ فیصد تھی، جو2020ء میں 9.14؍ فیصد ہو گئی۔

پیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی2010ء سے 2020ء کے درمیان شمالی امریکہ میں52؍ فیصد بڑھی ہے۔ یہاں کل مسلم آبادی 59؍ لاکھ ہے۔دنیا کے الگ الگ حصوں میں مسلم آبادی میں اضافہ کے بارے میں بات کی جائے تو   افریقہ میں34؍ فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے۔ یہ علاقہ قدرتی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے مسلم آبادی میں زیادہ اضافہ درج کرتا ہے۔ ایشیا پیسفک ریجن میں کل مسلم آبادی 26؍ فیصد ہے جہاں4.1؍ فیصد مسلم آبادی بڑھی ہے۔

دریں اثنا پیوریسرچ کے حوالے سے یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ   اگرچہ ایک دہائی کے دوران دنیا میں مسلمانوں کی آبادی میں سب سے تیزی سے اضافہ ہوا ہے لیکن ہندو مذہب بھی پھیل رہا ہے۔ وہ بھی ان ممالک میں جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ جیسے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندو آبادی میں 62 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ وہیں  شمالی امریکہ، کینیڈا میں ہندوؤں کی آبادی میں 55 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان دونوں علاقوں میں بڑی تعداد میں این آر آئی رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ لاکھوں ہندوستانی این آر آئیز روزگار کے لیے سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر اور یو اے ای جیسے ممالک میں آباد ہیں۔ ان میں زیادہ تر ہندو ہیں۔ پہلے جہاں عبادت صرف گھروں تک محدود تھی اب وہاں مندر قائم ہو رہے ہیں اور تہوار بھی سرعام منائے جا رہے ہیں۔ دبئی میں بنایا گیا عظیم الشان ہندو مندر اس کی تازہ مثال ہے۔ اب وہاں دسہرہ سے دیوالی اور چھٹھ تک خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بیرون ملک مقیم ہندوؤں نے ان ممالک میں اپنے تہواروں کو نئی توانائی اور عوامی شرکت کے ساتھ منانا شروع کر دیا ہے۔

امریکہ میں آباد ہندوؤں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نیو جرسی، ٹیکساس اور کیلیفورنیا جیسی ریاستوں میں ایک بڑی ہندوستانی کمیونٹی ہے، جن میں سے زیادہ تر ہندو ہیں۔ پیو کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2010 سے 2020 کے درمیان امریکہ میں ہندوؤں کی آبادی میں 55 فیصد اضافہ ہوا۔ یہاں نہ صرف مندروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ یوگا، آیوروید اور روحانیت کی وجہ سے وہاں کے لوگ ہندو مت کے تئیں مثبت رویہ بھی پیدا کر رہے ہیں۔ اب دیوالی جیسے تہوار کو امریکی سکولوں اور یونیورسٹیوں میں پہچان ملنا شروع ہو گئی ہے۔

وہیں اس دعوے کو یہ کہہ کر جھوٹا بتایا جا رہا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ درج ہونے کا مطلب ہے کہ لوگ  ہندوستان سے روز گار کی تلاش میں ان ممالک میں پہنچ رہے ہیں جس کی وجہ سے تعداد میں اضافہ درج کیا جا رہا ہے جو حقیقت بھی ہے ۔گزشتہ کچھ عرصوں میں ملک میں بے روزگاری اور ملازمت کی کمی کے سبب بڑی تعداد میں لوگوں نے ملک چھوڑ کر خلیجی ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں ہندوؤں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد وہاں ملازمت اور روزگار کے لیے جا رہی ہے۔ وہ وہاں رہنے لگتے ہیں۔ وہ وہاں بچوں کو جنم دیتے ہیں اور وہاں کے مستقل باشندے بن جاتے ہیں۔ یعنی جب وہاں کام کرنے کے لیے جانے والے ہندوستانی اپنے خاندانوں کے ساتھ بس جاتے ہیں یا وہاں بچے پیدا ہوتے ہیں تو آہستہ آہستہ ایک نئی ہندو آبادی بنتی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ہندوؤں کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھی ہے کہ اب متحدہ عرب امارات اور کویت میں ہندو مندروں کو سرکاری منظوری ملنا شروع ہوگئی ہے۔