نااہلی یا ساز باز؟ امرتیہ سین نے دلی فسادات پر پولیس کے کردار پر سنگین نکتہ چینی کی
دلی تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نوبیل انعام یافتہ دانش ور امرتیہ سین نے کہا کہ ہندوستان ایک سیکولت ملک ہے جہاں عوام میں مذہبی بنیاد پرتفریق نہیں کی جاسکتی۔
بول پور، مغربی بنگال—حالیہ دلی فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے نوبیل ینعام یافتہ دانش ور نے کہا کہ اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے کہ آیا پولیس ناہل ثابت ہوئی ہے یا اس کی بلوائیوں کے ساتھ ساز باز تھی اور حکومت کی جانب سے فسادات کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
’’مجھے اس بات کی بے حد تشویش ہے کہ یہ تشدد جس جگہ رونما ہوا، وہ ملک کی راج دھانی ہے۔ اگر وہاں پر اقلیتوں پر تشدد کیا جائے اور پولیس اسے روکنے میں ناکام رہے یا اپنا فرض انجام نہ دے تو یہ بات سنگین تشویش کا باعث ہے۔ ‘‘
جناب سین مغربی بنگال کے بول پور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
’’خبر ہے کہ جو لوگ تشدد کا شکار ہوئے اور ہلاک ہوئے ان کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں عوام کو ہندوؤں اور مسلمانوں میں نہیں بانٹا جاسکتا ۔ بھارتی شہری ہونے کے ناطے میں بہت فکرمند ہوں۔‘‘
البتہ جناب سین نے کہا کہ وہ صورت حال کا پوری طرح تجزیہ کیے بغیر ابھی کوئی نتیجہ اخذنہیں کریں گے۔ انھوں نے کہا جسٹس مرلی دھر کے دلی ہائی کورٹ سے تبادلے پر سوال کھڑے کرنا فطری بات ہے۔
جناب سین نے نامہ نگاروں سے کہا ’’میں ذاتی طور پر انھیں جانتا ہوں۔ ان کے تبادلے پر سوال اٹھنافطری امر ہے، لیکن میں اس پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔‘‘
ملحوظ رہے کہ جسٹس مرلی دھر اپنے تبادلے سے ایک دن قبل دلی تشدد کے معاملے کی سنوائی کر رہے تھے۔ انھوں نے پولیس کی ناکامی پر ناراضگی اک اظہار کیا تھا اور اس سے سوال کیا تھا کہ بی جے پی رہنماؤں کی مبینہ نفرت انگیز تقریروں پر ان کے خلاف ابھی تک معاملہ کیوں نہیں درج کیا گیا۔”