میں ایسے ہندوستان میں یقین رکھتا ہوں جہاں پہچان قابلیت سے طے ہوتی ہے

بی جے پی رہنمانشی کانت دوبے کے ذریعہ مسلم کمشنر کہے جانے پرسابق الیکشن کمشنر  ایس وائی قریشی کا شدید رد عمل

نئی دہلی،22 اپریل :۔

متنازعہ  وقف ترمیمی قانون  پر سپریم کورٹ کے تبصرہ کے بعد عدلیہ  بی جے پی رہنماؤں اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے نشانے پر ہے۔ اگر چہ بی جے پی نے نشی کانت دوبے کے متنازعہ بیان سے کنارہ کشی اختیارکر لی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنے خلاف کوئی بھی فیصلہ سننابی جے پی کو ناگوار ہے ۔صرف یہی نہیں بلکہ ان کے بیان کی مذمت کرنے والے بھی ان کے نشانے پر ہیں۔نشی کانت دوبے نے سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کو بھی نشانہ بنایا اور انہیں مسلم کمشنر کہا جس پر انہوں  نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اگرچہ کچھ لوگ نفرت کی سیاست کو فروغ دینے کے لیے مذہبی شناخت کا استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ اس ہندوستان میں یقین رکھتے ہیں،’جہاں کسی شخص کی پہچان اس کی صلاحیتوں اورخدمات سے ہوتی ہے نہ کہ اس کی مذہبی شناخت سے۔

دراصل، 17 اپریل کو ایس وائی قریشی نے اپنی ایکس پوسٹ میں مرکزی حکومت کے متنازعہ وقف (ترمیمی) ایکٹ پر تبصرہ کیا تھا، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا ، ‘یہ وقف ایکٹ بلاشبہ مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا حکومت کا انتہائی گھناؤنا اور شاطرانہ منصوبہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ اسے مسترد کر دے گی۔ شرارتی پروپیگنڈہ مشین نے غلط معلومات پھیلا کر اپنا کام بخوبی کرلیا ہے۔

گزشتہ 20 اپریل کو بی جے پی ایم پی نے قریشی کی اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ، ‘آپ الیکشن کمشنر نہیں، مسلم کمشنر تھے۔ جھارکھنڈ کے سنتھال پرگنہ میں سب سے زیادہ بنگلہ دیشی دراندازوں کو ووٹر آپ کے دور میں ہی بنایا گیا۔ پیغمبر محمدصاحب  کا اسلام 712 میں ہندوستان میں آیا۔ اس سے پہلے یہ سرزمین ہندوؤں یا اس عقیدے سے وابستہ قبائلیوں، جین یا بدھ مت کے ماننے والوں کی تھی۔ میرے گاؤں وکرم شیلا کو بختیار خلجی نے 1189 میں جلایا، وکرم شیلا یونیورسٹی نے دنیا کو اپنا پہلا وائس چانسلر آتش دیپانکر کی صورت میں دیا۔ اس ملک کو جوڑو، تاریخ پڑھو، توڑنے سے پاکستان بنا، اب بٹوارہ نہیں ہوگا؟

یہ واضح نہیں ہے کہ دوبے نے اپنے حقائق کے لیے کن تاریخی ذرائع کا حوالہ دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے ان کے بیان پر تنقید کی ہے۔اور ان پر توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

قریشی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے سے پہلے دوبے نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو ‘ملک میں جاری خانہ جنگی’ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ تب بی جے پی کو ان کے  بیان سے خود کوالگ کرنا پڑا۔ لیکن بی جے پی نے قریشی پر دیے گئے بیان پر کوئی رد عمل نہیں دیا ہے۔

قریشی، جو 1971 بیچ کے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) کے افسر ہیں، وزارت برائے امور نوجوانان اور کھیل میں سکریٹری کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

دوبے کے متنازعہ ریمارکس پر  قریشی نے کہا، ‘میں نے ایک آئینی عہدے – الیکشن کمشنر – پوری ایمانداری  اور اہلیت کے ساتھ کام کیا ہے اور انتظامی خدمات میں میرا طویل اور اطمینان بخش کیریئر رہا۔ میں اس ہندوستان میں یقین رکھتا ہوں جہاں کسی شخص کو اس کی قابلیت اور خدمات کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے نہ کہ اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر۔ لیکن شاید کچھ لوگوں کے لیے مذہبی شناخت نفرت انگیز سیاست کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہندوستان نے ہمیشہ آئینی اداروں اور اصولوں کا تحفظ کیا ہے اور کرتا رہے گا۔’