‘میرے بیٹے کو پولیس نے  اس لئے مارا کیونکہ وہ مسلمان تھا، انہیں سخت سزا ملنی چاہیے’

دہلی فسادات 2020 کے دوران پولیس کی بربریت کا شکار فیضان کی ماں   کو کیس سی بی آئی کو سونپے جانے کے بعدانصاف کی امید   

نئی دہلی،29 جولائی :۔

ملک کی راجدھانی دہلی کے شمال مشرقی دہلی میں 2020 میں ہوئے فساد میں 23 سالہ فیضان  پولیس کی بر بریت کا شکار ہو گیا تھا۔گزشتہ دنوں فیضان کے معاملے میں کورٹ نے سی بی آئی کو جانچ سونپ دی ہے جس پر فیضان کی ماں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کی امید ظاہرہ کی ہے۔

اس سلسلے میں انڈیا ٹو مار سے گفتگو کرتے ہوئے فیضان کی ماں نے کہا کہ میرے چھوٹے بچے کو پولیس نے قتل کیا، جان بوجھ کر بغیر کسی قصور کے مارا گیا اور انہوں نے اسے مسلمان سمجھ کر مار دیا۔ ملزم پولیس والوں کو بھی سخت سزا دی جائے، امید ہے انصاف ملے گا۔

انڈیا ٹو ماروں کی رپورٹ کے مطابق   یہ بیان ہے کردم پوری، دہلی کی ایک 65 سالہ ماں، کسمتون  کا جس کے 23 سالہ بیٹے فیضان کو شمال مشرقی دہلی میں 2020 کے فسادات کے دوران "نامعلوم” پولیس والوں نے مارا پیٹا، جس کے بعد فیضان کی موت ہوگئی۔

دہلی پولیس پر فیضان کو مارنے اور قومی ترانہ گانے پر مجبور کرنے کا الزام تھا، جس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی۔ اس وائرل ویڈیو میں دہلی پولیس کی بربریت اور اس کا فرقہ وارانہ چہرہ دکھایا گیا تھا۔

فیضان کی والدہ قسمتن نے بیٹے کو انصاف دلانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ سال 2020 میں، اس نے عدالت کی نگرانی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (SIT) سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک عرضی دائر کی تھی۔

اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے 23 جولائی 2024 کو دہلی ہائی کورٹ نے فیضان کی موت کی تحقیقات سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو سونپنے کا حکم دیا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے فیضان کی موت کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپے جانے کے بعد انڈیا ٹومارو سے بات کرتے ہوئے فیضان کی والدہ قسمتون نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ سی بی آئی کی تحقیقات سے انہیں انصاف ملے گا اور ملزم پولیس اہلکاروں کو سزا ملے گی۔فیضان کی والدہ کا کہنا تھا کہ 24 سال قبل میرے بچے یتیم ہوئے، میں نے بڑی مشکل سے یتیم بچوں کی پرورش کی، لیکن پولیس نے انہیں ایک ہی وار کرکے مار دیا۔

انڈیا ٹومارو سے گفتگو کرتے ہوئے فیضان کی والدہ نے کہا کہ پولیس والوں نے کئی بار ہم پر سمجھوتہ کے لیے دباؤ ڈالا لیکن ہم نے ہر بار ان کی کوئی بھی پیشکش ٹھکرا دی۔ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے ہم پر بیان بدلنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہے اور لوگوں کو ہمارے گھر بھیجتے رہے لیکن ہم کسی طرح نہیں مانے کیونکہ ہم انصاف چاہتے ہیں۔

فیضان کی والدہ نے بتایا کہ ان کا بیٹا احتجاج میں حصہ لیتا تھا لیکن کبھی کسی لڑائی جھگڑے میں شامل نہیں ہوا۔ اس دن اچانک پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور پھر بھگدڑ مچ گئی، اسی دوران فیضان کو پولیس اٹھا کر لے گئی اور بری طرح زدوکوب کیا۔

فیضان کی والدہ کے دعوے کے مطابق جیوتی نگر تھانے میں تعینات پولیس اہلکاروں نے فیضان کی پٹائی کی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے ان پولیس والوں کو پہچانا اور ان کے نام بھی بتائے لیکن ان کا تبادلہ کہیں اور کر دیا گیا ہے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

معلوم ہوا ہے کہ اس کیس کی تفتیش کرنے والی پولیس نے عدالت میں کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی شناخت نہیں ہوسکی جس پر عدالت نے پولیس کی سرزنش بھی کی۔ تاہم فیضان کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اپنی درخواست اور شکایتی خط میں ملزم پولیس اہلکاروں کے نام دیے ہیں۔

اس معاملے میں سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس انوپ جے رام بھمبھانی نے پولیس کی تفتیش پر سوال اٹھائے اور چار سال کی تحقیقات کے بعد بھی فیضان کی پٹائی میں ملوث پولیس اہلکاروں کی شناخت کرنے میں ناکام رہنے پر ان کی سرزنش کی۔

قسمتون نے انڈیا ٹومارو کو بتایا، "جب فیضان کو گھر لایا گیا تو اس نے بتایا کہ پولیس نے اسے بہت مارا پیٹا، وہ ٹھیک سے بول بھی نہیں پا رہا تھا۔ پولیس اہلکار فیضان کی پٹائی کرتے ہوئے اسے کٹوا اور دیگر گالیاں دے رہے تھے۔ فیضان کا گلا خشک ہو گیا اور اس نے پانی مانگا تو پولیس والوں نے اسے منہ کھول کر پیشاب کرنے کو کہا۔‘‘

فیضان پانچ بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھا۔ فیضان کے والد کا انتقال 24 سال قبل ہوا تھا۔ سب سے بڑا بھائی 40 سالہ ندیم ہے جو اسکرین پرنٹنگ کا کام کرتا ہے۔ دوسرا بھائی 35 سالہ وسیم ہے جو ای رکشہ چلاتا ہے، تیسرا بھائی 32 سالہ نعیم ہے جو ٹیلرنگ کا کام کرتا ہے، فیضان چوتھے نمبر پر تھا اور سب سے چھوٹا بھائی 24 سالہ سلمان ہے جو سلائی کا کام کرتا ہے۔

24 فروری 2020 کو احتجاج پر ایکشن لینے کے بعد فیضان کو پولیس نے قتل کر دیا تھا جس کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی۔ فیضان کی والدہ کو شام کو اطلاع ملی کہ وہ جی ٹی بی اسپتال میں داخل ہے جب فیضان کی والدہ اسپتال پہنچی تو پولیس فیضان کو جیوتی نگر تھانے لے گئی۔

انڈیا ٹومارو سے بات کرتے ہوئے فیضان کی والدہ نے کہا، "جب میں اپنے بیٹے کو لینے پولیس اسٹیشن پہنچی تو پولیس والوں نے مجھے ڈانٹ کر بھگا دیا، مجھے گالی دی اور میرے بیٹے کو فسادی کہا۔ جب میرا بیٹا میرے حوالے نہیں کیا گیا تو میں روتی ہوئی گھر آگئی۔

عدالت نے یہ حکم متوفی فیضان کی والدہ قسمتون کی جانب سے دائر درخواست پر دیا ہے۔ فیضان کی والدہ قسمتون نے عدالت کی نگرانی میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) سے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک عرضی دائر کی تھی۔

یہ درخواست فیضان کی والدہ قسمتون نے سال 2020 میں دہلی فسادات کے بعد دائر کی تھی۔ تاہم، اب اس درخواست کو دہلی ہائی کورٹ نے 23 جولائی 2024 کو قبول کر لیا ہے۔