میرٹھ: ڈیڑھ سو سال پرانی تاریخی مسجد راتوں رات منہدم
مسجد انتظامیہ کمیٹی نے حکومت سےمتبادل جگہ اور معاوضے کی مانگ کی

نئی دہلی ،میرٹھ 22 فروری :۔
اتر پردیش کی یوگی حکومت میں مساجد کو غیر قانونی تعمیر قرار د ے کر منہدم کرنا اور بلڈوزر کارروائی کرنا عام بات ہوتی جا رہی ہے۔ کوشامبی کی مدنی مسجد پر کارروائی اور گورکھپور میں مسجد کو جی ڈی اے کے نوٹس کے بعد اب میرٹھ میں ایک ڈیڑھ سو سالہ مسجد کو انتظامیہ نے راتوں رات منہدم کر دیا ۔مسجد انتظامیہ اور مقامی مسلمانوں نے متبادل جگہ اور مسجد انہدام پر معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق میرٹھ میں 168 سال پرانی ایک تاریخی مسجد کو انتظامیہ نے نصف شب کے وقت بلڈوزر چلا کر منہدم کر دیا۔ یہ مسجد دہلی روڈ پر سروس لین میں واقع تھی اور میٹرو و ریپڈ ریل کاریڈور کے درمیان آ رہی تھی، جس کے باعث حکام نے اسے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق، دو دن قبل اس مسجد کا بجلی کنکشن منقطع کر دیا گیا تھا، جس کے بعد مقامی مسلمانوں نے خود ہی مسجد کو ہٹانے کی کوشش کی اور ہتھوڑے چلا کر کچھ حصے توڑے۔ تاہم، جمعہ کی رات انتظامیہ نے بلڈوزر لگا کر پوری مسجد کو مسمار کر دیا اور فوراً ملبہ بھی ہٹا دیا گیا ۔
یہ مسجد دہلی روڈ پر جگدیش منڈپ کے قریب واقع تھی اور ایک طویل عرصے سے یہاں قائم تھی۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ مسجد میٹرو کے تعمیراتی منصوبے میں رکاوٹ بن رہی تھی، جس کی وجہ سے اسے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ دوسری جانب مقامی افراد کا کہنا ہے کہ وہ اس کے بدلے متبادل جگہ اور مناسب معاوضہ چاہتے تھے، مگر ان کی مانگ پوری کیے بغیر ہی مسجد کو مسمار کر دیا گیا۔
مسجد گرانے کے دوران سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے اور بڑی تعداد میں پولیس فورس کو تعینات کیا گیا تھا۔ مسجد کے انہدام کی اطلاع ملنے کے بعد علاقے میں تناؤ کی کیفیت دیکھی گئی، تاہم پولیس اور انتظامیہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اس معاملے پر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مسجد کو ہٹانے کا فیصلہ باہمی رضامندی سے کیا گیا اور اس کے پیچھے کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ دوسری طرف مسلم نمائندوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں مسجد کے لیے نئی جگہ دی جائے اور مناسب معاوضہ فراہم کیا جائے۔