مہاراشٹر :قدیم تاریخی مسجد میں داخلے پر پابندی کے خلاف مسلم فریق  نے بمبئی ہائی کورٹ کا رخ کیا

جامع مسجد ٹرسٹ کے  سر براہ الطاف خان نے اپنی درخواست میں کلکٹر کے حکم کو غیر قانونی اور جانبدارانہ قرار دیا

نئی دہلی ،17 جولائی :۔

مہاراشٹر کے کھاندیش علاقے میں واقع علاء الدین خلجی کے دور 1610 میں تعمیر تاریخی  جامع مسجد کو  مقامی کلکٹر کے ذریعہ سیل کئے جانے کا معاملہ اب ممبئی ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے ۔جامع مسجد ٹرسٹ کمیٹی نے مسجد میں داخلے پر پابندی کے معاملے میں بامبے ہائی کورٹ کا رخ کیا ہے۔   جس شکایت پر کلکٹر نے یہ فیصلہ دیا ہے، اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مسجد کا ڈیزائن مندر جیسا ہے۔ اب عدالت اس معاملے کی سماعت 18 جولائی کو کرے گی۔

 

’ہندوستان ٹائمز‘  کی ایک رپورٹ کے مطابق   جامع مسجد  ٹرسٹ کے سربراہ الطاف خان نے اپنی درخواست میں کلکٹر کے حکم کو جانبدارانہ اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔ درخواست گزار ٹرسٹ کے وکیل ایس ایس قاضی نے کہا کہ 11 جولائی کو کلکٹر نے مسجد میں داخلے پر پابندی کا حکم نامہ پاس کرتے ہوئے ایرنڈول میونسپل کونسل کے چیف آفیسر کو مسجد کی چابیاں سونپ دیں۔ ان کے حکم کے مطابق اب صرف دو افراد کو وہاں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت ہوگی۔

عرضی کے مطابق ایرنڈول تعلقہ میں پانڈاؤ سنگھرش سمیتی نے مئی میں کلکٹر کے پاس اس سلسلے میں ایک شکایت درج کرائی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس مسجد کا ڈھانچہ ایک مندر سے ملتا جلتا ہے اور اس لیے مسلمانوں کے ذریعہ کئے گئے اس غیر قانونی قبضے کو خالی کیا جانا چاہیے۔ اس ڈھانچے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کمیٹی کی جانب سے اسے گرانے اور یہاں چل رہے مدرسہ کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس کے بعد کلکٹر کی جانب سے 27 جون کو 14 جون کی سماعت کی تاریخ مقرر کی گئی، لیکن کلکٹر کی مصروفیت کی وجہ سے سماعت نہیں ہو سکی۔

اس سلسلے میں جامع مسجد ٹرسٹ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ بعد کی تاریخ کو، ٹرسٹ نے کلکٹر سے شکایت کا جائزہ لینے اور اپنا جواب داخل کرنے کے لیے وقت مانگا، لیکن اسے اس کے لیے وقت نہیں دیا گیا ۔11 جولائی کو فیصلہ سناتے ہوئے مسجد میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ کلکٹر کے حکم کو متعصبانہ اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ٹرسٹ نے کہا کہ اسے اپنا موقف  پیش کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ اس حکم کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست گزار نے اسے منسوخ کرنے کی  اپیل کی  ہے۔

ٹرسٹ  نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یہ مسجد کئی دہائیوں پرانی ہے اور مہاراشٹر حکومت نے اسے تاریخی یادگار قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے محفوظ یادگاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ٹرسٹ نے یہ بھی کہا کہ ابھی تک محکمہ آثار قدیمہ یا ریاستی حکومت کی طرف سے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا ہے۔