مہاراشٹر :سر کردہ ملی تنظیموں کے ایک موقر وفد کا جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی سے ملاقات
وفد نے مکمل وقف ترمیمی بل 2024 کو دستور کے خلاف قرار دیتے ہوئے واپس لینے کا مطالبہ کیا
نئی دہلی ،ممبئی 26 ،ستمبر :۔
مہاراشٹر کی چنندہ ملی تنظیموں کا ایک موقر وفد نے جے پی سی سے ملاقات کی اور اپنے موقف سے آگاہ کیا۔سانتاکروز کے تاج ہوٹل میں ہونے والی اس ملاقات میں ملی تنظیموں کی جانب سے کمیٹی کو میمورنڈم پیش کیا گیا جس میں مکمل وقف ترمیمی بل2024 کو دستور کے خلاف بتاتے ہوئے اُسے واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا.
وفد کے شرکاء نےکمیٹی کو بتایا کہ تقریبا سارے مسلمان اس وقف ترمیمی بل کے مخالف ہیں، چنانچہ پورے ملک سے تقریبا ساڑھے پانچ کڑوڑ سے زائد مسلمانوں نے جے پی سی کی ہدائت کے مطابق اس بل کی مخالفت میں ای میل کئے ہیں، اس کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں ڈاک اور کورئر سے بھی خطوط بھیجے ہیں، ساڑھے پانچ کروڑ کی تعداد کم نہیں ہوتی، ہندوستان میں مسلم آبادی کے ایک تہائی حصہ یعنی ۳۳ فیصد نے اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، اس کے علاوہ ایسے مسلمان جو گاوں دیہات میں رہتے ہیں یا اُن کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہیں اگرچہ وہ میل نہیں بھیج سکے، لیکن وہ سب بھی اس سیاہ بل کو مسترد کرانا چاہتے ہیں، وفد کے اراکین نے یہ بھی کہا کہ پچھلے کچھ عرصےمستقل یہ جھوٹ پھیلایا جارہا ہے کہ وقف بورڈ جس زمین یا جائداد پر دعویٰ کردے حکومت وہ زمین وقف کو دینے پر مجبور ہوجاتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود وقف کی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر دوسروں کا غیرقانونی قبضہ ہے، جس کو چھڑانے کے لئے جدوجہد کی جارہی ہے، مگر اس بل کے پاس ہونے کے بعد وہ ساری مقبوضہ زمینیں وقف کے قبضے سے نکل سکتی ہیں ـ یہ بھی بتایا گیا کہ اب تک وقف کے لئے کئی سطح پر مشتمل عدالتی نظام ہے، وقف ٹربیونل کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک جانے کی گنجائش ہے، مگر موجودہ ترمیم کے بعد عدالتوں کے سارے امور ضلع کے کلکٹر کو منتقل ہوجائیں گے، ظاہر ہے ملک کا کوئی بھی کلکٹر حکومت کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، اسی طرح وقف بورڈ میں غیرمسلم ممبران کی شمیولیت، سی ای او کے لئے مسلم کی شرط ختم کرنے کی تجویز پر بھی اعتراض کیا گیا، نیز اس ترمیمی بل کی مزید خامیوں کو بھی اُجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہمیں لگتا ہے کہ وقف کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے یہ قانون لایا جارہا ہے.
یہ ہمارے لئے قطعا ناقابل قبول ہے، مسلمان اس مجوزہ بل میں ترمیم کے بجائے اس پورے بل کو ہی مسترد کرتے ہیں، شرکاء وفد نے کہا کہ وقف کی زمینیں کوئی عوامی جائداد نہیں ہیں بلکہ پرائیویٹ پراپرٹی ہیں، جن کے مالک مسلمان تھے، اور اُنھوں نے ان جائداوں کو اپنی ملکیت سے نکال کر اللہ کی ملکیت میں دے دیا تھا تاکہ ان کی آمدنی سے بھلائی اور خیر کے کام ہوتے رہیں ـ لہذا مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت اس وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ کو فورا واپس لے، نیز جوائنٹ پارلمنٹری کمیٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی ایسی تنظیموں یا ایسے افراد سے ملاقات کرے جو مسلمانوں میں زمینی سطح پر کام کرتے ہیں، بہت سی کاغذی تنظیمیں بھی کمیٹی کے سامنے آرہی ہوں گی ـ ہم امید رکھتے ہیں کہ جوائنٹ پارلمنٹری کمیٹی وقف ترمیمی بل کے سلسلے میں حکومت کو مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کرے گی نیز اس بل کو مسترد کرنے کی سفارش بھی کرے گی ـ اگر زور زبردستی کرکے خدانخواستہ بل پاس کرالیا جاتا ہے توملک کے مسلمان دستور میں دئے گئے حقوق کے مطابق آخر دم تک اس بل کے خلاف ہر قسم کی جدوجہد پر مجبور ہوجائیں گے ـ
ملاقات میں آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سکریٹری مولانا محمود احمد خاں دریابادی، مہاراشٹر جماعت اسلامی کے صدر مولانا الیاس خاں فلاحی، انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیرقاضی، ممبئی امن کمیٹی کے صدر فرید شیخ، مولانا فہیم فلاحی سکریٹری وقف سیل جے ایچ آئی، مومنٹ پیس اینڈ جسٹس کے صدر محمدسراج، شیعہ عالم دین آغا روح ظفر، مبین احمد ایڈوکیٹ ہائی کورٹ،جماعت اسلامی ممبئی کے سکریٹری شاکر شیخ، بمبئی ایجوکیشن اینڈ شوشل ٹرسٹ کے مینجنگ ٹرسٹی سلیم موٹر والا، افسر عثمانی سکریٹری ایم پی جے،میمن جماعت کے حافظ اقبال چوناوالا اور دیگر حضرات شریک تھے ۔