مہاراشٹر:مندر انتظامیہ نے سیکڑوں مسلم عملہ کو بر طرف کر دیا
شری شنیشور دیوستھان ٹرسٹ نے ہندوتو تنظیموں کے دباؤ میں167 اسٹاف کو معطل کر دیاجن میں114 مسلمان شامل ،کارروائی پرچوطرفہ تنقید

دعوت ویب ڈیسک
نئی دہلی ،ناسک،14 جون :۔،
ہندوتو تنطیموں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ کی مہم کا سلسلہ جاری ہے ۔ہندو مندروں میں کام کرنے والے مسلمانوں کو باہر کیا جا رہا ہے ۔ ہندوتو تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے بھی مندر انتظامیہ مسلمانوں کے خلاف یہ کارروائی کر رہا ہے ۔مہاراشٹر کے اہلیہ نگر میں واقع معروف شانی شنگنا پور مندر میں بھی حالیہ دنوں میں کام کرنے والے سیکڑوں مسلم مزدوروں کو بر طرف کر دیا گیا ہے ۔مندر کے ٹرسٹ شری شنیشور دیوستھان ٹرسٹ نے ہندو تنظیموں کے دباؤ میں 167 ملازمین کو "ضابطے کی کارروائی ” کا حوالہ دیتے ہوئے برطرف کر دیا ہے، جن میں سے 114 – دو تہائی سے زیادہ – مسلمان شامل ہیں ،جو مندر میں مختلف شعبوں میں کام کر رہے تھے ۔ رپورٹ کے مطابق یہ کارروائی پچھلے 8 جون اور 13 جون کے دورمیان دو راؤنڈ میں کی گئی ۔اور یہ کارروائی ٹرسٹ نے ہندوتو تنظیموں کے دباؤ میں کیا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں سر گرم ہندو تو تنظیم سکل ہندو سماج نے 14 جون کو مندر سے غیر ہندو عملے کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، مئی میں ایک ویڈیو میں مبینہ طور پر ایک غیر ہندو شخص کو مندر کے احاطے میں پینٹنگ کے کام میں مصروف دکھایا گیا تھا۔
جب کہ مندر کے ٹرسٹ نے سرکاری طور پر برطرفی کی وجہ "غیر کارکردگی اور طویل غیر حاضری” کو قرار دیا۔ اور میڈیا یا برطرف ملازمین کے ساتھ کوئی خاص وجہ شیئر نہیں کی گئی۔ متاثرہ عملہ مبینہ طور پر 2 سے 10 سال سے مندر کے خدمات سے جڑا ہوا تھا۔
اتنے بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی بر طرفی پر چوطرفہ تنقید کی جا رہی ہے ۔بڑھتے معاملے کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے وضاحت دی ہے ۔ دیوستھان کے سی ای او گورکشناتھ درندلے نے اس اقدام کے پیچھے کسی بھی فرقہ وارانہ ارادے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ امتیازی سلوک کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے عملے کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی ہے۔ بہت سے ملازمین بے قاعدہ تھے اور کام پر رپورٹ نہیں کرتے تھے۔ ہم نے ان کی تنخواہیں روک دی تھیں اور شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔
ایک سینئر اہلکار نے واضح کیا کہ برطرف عملہ بنیادی طور پر ٹرسٹ کے زراعت، فضلہ کے انتظام اور تعلیم کے محکموں سے وابستہ تھا، انہوں نے مزید کہا کہ کچھ پانچ ماہ تک غیر حاضر تھے۔ان اچانک اور اتنے بڑے پیمارنے پر ملازمین کی برطرفیوں نے شہری حقوق کے گروپوں میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ در اصل اس پوری کارروائی کو انتظامی کارروائی اور خدشات کے بجائے ہندوتو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ کے دباؤ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔